احسان اللہ احسان کے فرار میں فوجی ملوث تھے، سزا دیدی گئی ، ترجمان پاک فوج
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز)پاک فوج کے شعبہ تعلقات عا مہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے رکن اور سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے چند برس قبل پاکستانی فوج کی تحویل سے فرار ہونے کے ذمہ دار فوجی افسروں کے خلاف کارروائی کی جا چکی ہے۔
بدھ کے روز اپنے دفتر میں غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ احسان اللہ احسان کا فرار ہو جانا ایک بہت سنگین معاملہ تھا اور اس پر مکمل تحقیقات کر کے کارروائی کی گئی۔انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان کی دوبارہ گرفتاری کی کوششیں بھی جاری ہیں لیکن فی الوقت ا حسان اللہ احسان کا ٹھکانہ معلوم نہیں۔ملالہ یوسفزئی کو ٹوئٹر پر دھمکی کے بارے میں ایک سوال پر فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق جس ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ملالہ کو دھمکی دی گئی وہ ایک جعلی اکاؤنٹ تھا۔
میجر جنرل بابر افتخار نے جبری طور پر لاپتہ افراد کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’مسنگ پرسنز کے معاملے پر بننے والے کمیشن نے بہت پیش رفت کی ہے۔ اس کمیشن کے پاس چھ ہزار سے زائد افراد کے گمشدہ ہونے کے مقدمات تھے جن میں سے چار ہزار حل کیے جا چکے ہیں۔ ان کا واضح طور پر کہنا تھا کہ ’مسنگ پرسنز کا معاملہ بہت جلد حل ہو جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی گفتگو میں انکشاف کیا کہ گذشتہ ماہ بلوچستان کے علاقے کیچ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کنوں کے قتل سے تعلق کی بنا پر چند افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ یہ بہت اہم گرفتاریاں ہیں لیکن ان کی تفصیل ابھی نہیں دی جا سکتی۔
شمالی وزیرستان میں شدت پسندی کے بڑھتے واقعات کے بارے میں ایک سوال پر فوجی ترجمان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں منظم شدت پسند تنظیموں کو تو بہت عرصہ پہلے ختم کر دیا گیا تھا اور اب ان میں بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہے لیکن کچھ عرصے سے ان علاقوں میں ایک بار پھر تشدد کے اکا دکا واقعات رپورٹ کئے جا رہے ہیں۔ ان تازہ حملوں کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے بچے کچے شدت پسندوں کے خلاف بہت جارحانہ کارروائیاں شروع کی ہیں اور تازہ تشدد اسی کا نتیجہ ہے۔
جنرل بابر افتخار نے کہا کہ گذشتہ دنوں خواتین کی کار پر حملہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اب اس علاقے میں کوئی منظم گروہ باقی نہیں رہ گیا اور چھوٹے موٹے شدت پسند مختلف ناموں سے کارروائیاں کر رہے ہیں جن کا جلد ہی مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاکستان میں شدت پسندوں کی مدد افغانستان سے کی جا رہی ہے جہاں انڈیا ان تنظیموں کو ناصرف اسلحہ اور پیسے دے رہا ہے بلکہ نئی ٹیکنالوجی سے بھی نواز رہا ہے۔ہمارے پاس ایسے شواہد ہیں کہ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان مخالف شدت پسندوں کو ناصرف اسلحہ اور پیسے مل رہے ہیں بلکہ نئی ٹیکنالوجی بھی دی جا رہی ہے۔ اس کا مقصد ان دہشت گردوں کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ایک سوال کے جواب میں فوجی ترجمان نے کہا کہ یہ بات بعید ازقیاس نہیں ہے کہ یہ سب کارروائی افغان انٹیلی جنس کے علم میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کا مستقبل کیا ہو گا، مذاکرات آگے کیسے بڑھیں گے اور کس فریق کو کیا کرنا ہے، یہ سب افغانستان کے شہریوں اور حکومت کے کرنے کے کام ہیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس بات پر ضرور دھیان دینا ہو گا کہ افغانستان میں خلا ہرگز پیدا نہ ہو پائے۔
افغانستان سے اتحادی افواج کے ممکنہ انخلا اور اس کے بعد وہاں طالبان کی واپسی کے بارے میں ایک سوال پر فوجی ترجمان نے کہا کہ اب افغانستان بھی نوے کی دہائی والا نہیں ہے کہ اس کا ریاستی ڈھانچہ اتنی آسانی سے ڈھ جائے اور پاکستان بھی بدل چکا ہے۔ یہ ہرگز ممکن نہیں ہے کہ کابل پر طالبان دوبارہ سے قابض ہوں اور پاکستان ان کی حمایت کرے۔ ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔
یاد رہے کہ احسان اللہ احسان طویل عرصے تک تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ منسلک رہے اور اس دوران انہوں نے ملالہ یوسفزئی پر حملے سمیت پاکستان میں کئی شدت پسند حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ انہیں چند برس قبل گرفتار کیا گیا تھا اور وہ کسی عدالت کا سامنا کئے بغیر کچھ عرصے بعد ہی فوج کی حراست سے فرار ہو گئے تھے۔