’خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ (صدر) بنانا ہے آپ کو۔۔۔ خان صاحب نے کہہ دیا ہے۔‘چوہدری پرویز الٰہی نے صحافی سے بات کرتے ہوئے اپنے ساتھ کھڑے فواد چوہدری کو ٹوکتے ہوئے کہا۔یہ دلچسپ صورتحال لاہور میں زمان پارک کے باہر منگل کو فواد چوہدری اور پرویز الٰہی کی مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران دیکھنے کو ملی جس میں پرویز الٰہی اور دیگر ق لیگی رہنماؤں کی پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کیا گیا۔دراصل پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی کی جانب سے فواد چوہدری کے اس بیان کی وضاحت مانگی گئی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’سینیئر قیادت نے پرویز الٰہی کو جماعت کا صدر بنانے کی منظوری دے دی ہے۔
جو تصویر سامنے آئی اس کی بدن بولی (Body Language)پر طرح طرح کے تبصرے کیے جارہے ہیں،اس تصویر سے لگتا ہے کہ جیسے فواد چوہدری کو پکڑ کر زبردستی پرویز الٰہی کے ساتھ کھڑا کردیا گیا ہو۔
خیر جو ظاہر میں ہوتا ہے ضروری نہیں کہ پردے کے پیچھے بھی وہی ہورہا ہو،جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں ،جو ہوتا ہے وہ دکھتا نہیں ۔اسی فارمولے کی بنیاد پر کچھ نادیدہ قوتیں کام کرتی ہیں ،ریاستی امور ،نظام حکومت چلاتی ہیں ۔پاکستان کے ‘‘معصوم لوگ ’’ ظاہری تبدیلوں پر ہی ‘‘ایمان’’ لے آتے ہیں ۔کبھی کسی آمر کو اپنا مسیحا مان لیتے ہیں تو کبھی کسی جاگیر دار کو اپنے درد کا مداوا سمجھ لیتے ہیں،کبھی کسی ٹیکنو کریٹ کی بات پر کان دھرتے ہیں تو کبھی کسی کھلاڑی کے نعرے لگاتے لگاتے ہلکان ہوئے جاتے ہیں،تبدیلی کے اصل کرداروں کے بارے میں تو کبھی سوچتے ہی نہیں ۔
ضرور پڑھیں :سابق ڈی جی آئی ایس آئی پھر سے متحرک؟ پلان کیاہے؟ بڑا انکشاف
ایسا ہی معاملہ اپریل 2022 ء میں ہوا ،چہرے بدلے ،حکمران بدلے۔عمران خان کی جگہ شہباز شریف آگئے،عثمان بزدار کی جگہ وزیر اعظم کا بیٹا حمزہ شہباز آگیا ۔پھر پرویز الٰہی اور اب نگران سیٹ اپ۔جو کہتے تھے نواز شریف کی سیاست ختم ہوگئی ،وہ غلط ثابت ہوئے،اور جو اب یہ سوچ رہے ہیں کہ عمران خان ماضی کا حصہ بن جائیں گے تو امید ہے وہ بھی غلط ثابت ہوں گے سوال یہ ہے کیا عمران خان کو سیاسی میدان سے الگ کیا جاسکتا ہے؟ نئے انتخابات کی جانب پیش رفت ہوپائے گی ؟ محاذآرائی کی اس کیفیت میں انتخابات کا کوئی فائدہ ہوسکے گا ؟
سابق وزیر اعظم اپنے جلسوں میں گرجتے برستے جیل بھرو تحریک تک پہنچ گئے ہیں،جیل بھرو تحریک بھی ایسی کہ پہلے خود گرفتاریاں پیش کیں اور اب عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ،کپتان کے فالوورز جلسوں ،جلوسوں میں تو خوب دکھائی دیتے تھے لیکن جب جیلوں میں جانے کا وقت آیا ہے تو اکا دکا ہی نظر آتے ہیں،کہیں کہیں تو لیڈرز بھاگتے ہوئے پائے گئے ہیں ۔
ہمیں نہیں پتا کہ عمران خان تقاریر میں کس کو مخاطب کرتے ہیں لیکن فارن فنڈنگ کیس کو جواز بناکر عمران خان کو سیاست سے باہر نہیں کیا جاسکتا ،ان کا سیاست میں ایک مقام ہے، عمران خان خطرہ تو ہیں ،ان کی فین فالوونگ بھی ہے، جب ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کیا گیا تو وہ زیادہ خطرناک ہوگئے تھے،ان کے جلسوں کی مقبولیت انتہا کو پہنچ گئی تھی ،وہ لاڑکانہ سے جب لاہور پہنچے تھے تو پورا لاہور ان کے جلسے میں امڈ آیا تھا ۔جب یہ مقبولیت بڑھی تو بھٹو کیخلاف قتل کا مقدمہ بنایا گیا ،جو کام اس وقت کیا گیا تھا اب یہ ممکن نہیں ۔اب عوامی زور اور شعور بدل چکا ہے،عوامی زور عمران خان کی طرف ہے لیکن حکومت کسی اور کے پاس ہے،ملک کی معاشی صورتحال اچھی نہیں ،مہنگائی عروج پر ہے،عوام کو دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔
عمران خان کا حشر جی ٹی روڈ بیانیے جیسا ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی ۔اس وقت معاملات سکرپٹ کیخلاف ہیں ،عوام مان جائے کہ عمران خان چلے ہوئے کارتوس ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں۔عوام تو جوق در جوق عمران خان کے جلسوں میں آرہے ہیں،لاہور میں جب ان کو عدالت پیش کیا گیا تو پورا شہر ان کے رستے میں امڈ آیا تھا ۔شہر ہو یا دیہات ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی بلکہ بڑھتی ہی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں :وہ ایک بزدل کمانڈو تھا؟
عمران خان ایک سیاسی قوت ہیں،کوئی بھی مائنس ون نہیں ہوسکا ،ذوالفقار بھٹو کو مائنس نہیں کیا جاسکا ،نواز شریف کو حکومت سے نکالا گیا لیکن سیاست، عوام میں سے مائنس نہیں کیا جاسکا ،پانامہ میں 460 افراد کا نام آیا تھا لیکن صرف نو از شریف کو کیوں سزا دی گئی؟اب عمران خان کو پتا ہے کہ کون لوگ ان کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ بھٹو لاکھوں دلوں میں زندہ ہے،نواز شریف کو سیاسی کھیل سے نہیں نکالا جاسکا ،کیا عمران خان کو سیاست سے نکالا جاسکے گا ؟
اگر کسی کے پاس مقبول سپورٹ ہو،اسے آپ استعمال کرسکتے ہوں تو ایسے لیڈر کو سیاست سے بے دخل کرنا مشکل ہوتا ہے،سٹیٹ کے اداروں کے خیالات بھی بدل جاتے ہیں ،ایک یہ چیز ضرور ہے کہ ریاستی اداروں،قوت کو استعمال کرکے سیاسی مخالفین کو تباہ ضرور کیا جاسکتا ہے،ان کی ساکھ کو خراب کیا جاسکتا ہے۔حکومت کے پاس اہم ٹول فارن فنڈنگ کا ہے،جو پہلی مرتبہ سامنے آیا ۔سیاسی جماعتوں پر پابندیوں کے نوے فیصد قوانین مارشل لا کے ادوار میں آئے ہیں ۔پہلا پولیٹکل ایکٹ ایوب دور میں آیا تھا ،اس کے بعد دیگرآمروں نے اسے استعمال کیا ،کسی قوت کو استعمال کرکے مخالف کو دبانے سے ملکی سیاست کو نقصان پہنچتا ہے۔
سوشل میڈیا پر مختلف تبصرے سامنے آرہے ہیں کہ پرویز الٰہی عمران خان کو مائنس کردیں گے ایسے ہی جیسے انہوں نے بیرسٹر حماد اظہر کے والد میاں محمد اظہر کو مسلم لیگ (ق)سے آؤٹ کردیا تھا،خیر یہ تو مفروضے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں : حکومت کا خوفناک پلان ،عمران خان گھبرا گئے
سب تاویلیں اور تبصرے اپنی جگہ ۔پاکستان کے ماضی کو دیکھا جائے تو یہاں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے،یہ ثابت کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان بیرونی ایجنڈے پر چل رہے تھے،فارن فنڈنگ کیس کو بنیاد بنا کر ان کی پارٹی کو پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے،کچھ دن پہلے کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ عمران خان کو اس طرح اقتدار سے باہر نکال دیا جائے گا ۔کھیل کی بساط بچھانے والوں بڑی سمجھداری سے اپنے کھیل کو شروع کیا ہے،وقت کے ساتھ ساتھ سب ظاہر ہوتا جائے گا ،کہتے ہیں ناں ہیں کہ وقت زخم بھی ہے اور وقت مرہم بھی ہے۔