سوشل میڈیا کی طاقت،15 سال بعد بیٹی نے اپنے والد کے قاتل کا سراغ لگایا

Feb 24, 2023 | 11:36:AM

(ویب ڈیسک )بیٹی نے 15 سال بعد اپنے باپ کے قاتل کا پتا لگا لیا،یہ قاتل کیسے پکڑا گیا؟

26 اگست 2008 کو کراچی میں آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع سٹیٹ لائف کی عمارت میں ماہم امجد کے والد اور سٹیٹ لائف کمپنی کے ریجنل چیف محمد احمد امجد کو دس گولیاں مارکر قتل کیا گیا تھا۔

 ماہم امجد بتاتی ہیں کہ جب ان کے والد کو بے دردی سے قتل کیا گیا تو اس وقت ان کی عمر 15 برس اور ان کی بہن 19 سال کی تھیں۔ والدہ گھریلو خاتون تھیں اور ان کے گھر میں کوئی مرد نہیں تھا۔ماہم بتاتی ہیں کہ والدہ نے سٹیٹ لائف کے حکام کو متعدد درخواستیں بھیجیں لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

بی بی سی کو ماہم امجد  نے بتایا کہ ہمیں ڈرایا جاتا کہ ہم کو بھی نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ ہم کوئی ملازم نہیں رکھ سکتے تھے۔ والدہ ڈپریشن کا شکار ہو گئیں۔ ہم نے سکول کی پڑھائی بمشکل مکمل کی۔ اس کے بعد والدہ ہمیں لاہور لے گئیں، جہاں ہماری کوئی شناخت نہیں تھی۔اس کیس میں عدالت نے محمد تقی شاہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے لیکن اس وقت تک وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو چکے تھے۔

ماہم امجد دبئی میں رہتی ہیں، جہاں وہ پراپرٹی کے کاروبار کے علاوہ مارکیٹنگ کے شعبے سے بھی منسلک ہیں۔

ضرور پڑھیں : ضمانت کی درخواست خارج: پی ٹی آئی رہنما عدالت سے بھاگ گئے

وہ بتاتی ہیں کہ سنہ 2020 میں انھوں نے لنکڈاِن پر تقی شاہ کی پروفائل دیکھی جس سے معلوم ہوا کہ وہ دبئی میں ہیں۔ان کی ملازمت کی تفصیلات میں سٹیٹ لائف تحریر تھا۔انھوں نے یہ پروفائل اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ شیئر کی جنھوں نے تصدیق کی کہ ہاں یہ ہی وہ شخص ہے جو ان کے والد کے قتل میں نامزد ہے۔

ماہم کا دعویٰ ہے کہ  سٹیٹ لائف نے کبھی ایف آئی آر کی کاپی بھی ہمیں نہیں دی تھی، کبھی کوئی تھانہ بتایا جاتا تو کبھی کوئی، ہمیں ملزم کا پورا نام تک معلوم نہیں تھا، اصل پولیس فائل گم کر دی گئی تھی۔

ماہم کہتی ہیں کہ میں نے کووڈ کے دنوں میں دوبارہ فوٹو سٹیٹ نقول جمع کیں اور خاموشی سے کام کرتی رہی، جس کے بعد تمام ثبوت جمع کیے اور کیس دوبارہ کھل گیا۔

ماہم امجد نے گذشتہ سال 6 اکتوبر کو ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر اپنا ویڈیو پیغام جاری کیا، جس میں انھوں نے اپنے والد کے انصاف کے لیے مدد کی اپیل کی، جس میں انھیں کئی افراد نے قانونی مدد فراہم کرنے کی بھی پیشکش کی۔

ماہم امجد کے مطابق انھوں نے سوشل میڈیا پر عوام سے مدد لینے سے قبل سٹیٹ لائف کے چیئرمین سے رابطے کی کوشش کی۔ انھیں فون کالز اور ای میلز کیں تاہم انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔اس کے بعد انھوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لیا کیونکہ اب وہ کمزور نہیں تھیں، وہ مضبوط ہو چکی تھیں۔ ان کی ’فین فالونگ‘ تھی اور وہ پبلک فگر بن چکی تھیں، ان کے فینز اور کئی سیاستدانوں نے ان کی حمایت میں آواز اٹھائی۔

مزیدخبریں