(24 نیوز) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات پر از خود نوٹس کیس میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض اٹھا دیا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں لارجر بنچ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس پر سماعت کر رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی کاپی نہیں ملی، تمام فریقین کو نوٹس نہیں مل سکے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تمام ایڈوکیٹ جنرلز موجود ہیں نوٹس کا مقصد صرف آگاہ کرنا تھا، پیر کو کیس کی سماعت کریں گے۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ میں پیپلز پارٹی کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ تمام فریقین کو سن کر ججز پر اعتراض کا معاملہ دیکھیں گے، پیر کو تمام معاملات کو سنیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان پیپلزپارٹی، ن لیگ، جے یو آئی اور تحریک انصاف کے وکیل موجود ہیں، پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کو بھی نوٹس کیا ہے، صدر سپریم کورٹ بار کے علاوہ بھی کوئی وکیل پیش ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریں گے: سپریم کورٹ
فاروق نائیک نے کہا کہ ججز سے کوئی ذاتی خلفشار نہیں، جو ہدایات ملیں وہ سامنے رکھ رہا ہوں، ہدایات ہیں کہ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی بینچ سے الگ ہو جائیں۔ فاروق ایچ نائیک کے اعتراض پر چیف جسٹس نے کہا کہ ججز کے معاملے پر پیر کو آپ کو سنیں گے۔
فاروق ایچ نائیک نے پی ڈی ایم جماعتوں کا مشترکہ تحریری بیان عدالت میں پڑھ کر سنایا جس میں کہا گیا کہ جسٹس مظاہرنقوی اور جسٹس اعجازالاحسن پہلے ہی غلام محمود ڈوگر کیس میں اس معاملے کو سن چکے، استدعا ہے دونوں جج صاحبان خود کو ازخود نوٹس سے الگ کرلیں۔
پی ڈی ایم کے مشترکہ تحریری نوٹ میں کہا گیا ہےکہ فیئر ٹرائل کے حق کے تحت جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر کو بینچ سے الگ ہوجانا چاہیے، دونوں ججز کے کہنے پر ازخود نوٹس لیا گیا اس لیے مذکورہ ججز بینچ سے الگ ہوجائیں، دونوں ججز (ن) لیگ اور جے یو آئی کے کسی بھی مقدمے کی سماعت نہ کریں۔
فاروق ایچ نائیک نے غلام محمود ڈوگر کیس میں دونوں ججز کا فیصلہ بھی پڑھ کر سنایا جب کہ جسٹس جمال کا گزشتہ روز کا نوٹ بھی پڑھا۔
پی پی کے وکیل نے کہا کہ دونوں ججز نے ازخود نوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا، جسٹس مندوخیل کے نوٹ کے بعد جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر خود کو بینچ سے الگ کر دیں، ڈوگر کے سروس میٹر میں ایسا فیصلہ آنا تشویشناک ہے۔
دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ مسٹر نائیک آپ کو نہیں لگتا کہ یہ مفاد عامہ کا معاملہ فل کورٹ کو سننا چاہیے؟
اس پر فاروق ایچ نائیک نے انتخابات میں تاخیر کے ازخود نوٹس پر فل کورٹ بنانے کی استدعا کی اور کہا کہ انتخابات کا معاملہ عوامی ہے،اس پر فل کورٹ ہی ہونا چاہیے۔
فاروق نائیک کے مؤقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ 16 فروری کو فیصلہ آیا اور 22 فروری کو ازخود نوٹس لیا گیا، ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کا دائرہ اختیار ہے، آرٹیکل 184/3 کے ساتھ اسپیکرز کی درخواستیں بھی آج سماعت کے لیے مقرر ہیں۔
وکیل شیخ رشید نے عدالت کو بتایا کہ میڈیا پر ججز کی توہین کی جا رہی ہے، کوئی جماعت اپنی مرضی کے ججز شامل نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کو ججز کی تضحیک کا نوٹس لینا چاہیئے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے، اپنی جماعتوں سے کہیں کہ یہ معاملہ عدالت کیوں سنے۔ جس پر وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ اپنی جماعت سے اس معاملے پر ہدایت لوں گا۔
وکیل فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل میں کہا کہ جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ انتہائی اہم ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس وہ نوٹ ہے، یہ نوٹ تو تحریری حکم نامہ کا حصہ ہے جس پر ابھی دستخط نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ 16 فروری کو فیصلہ آیا اور 22 فروری کو ازخود نوٹس لیا گیا، ازخود نوٹس لینا چیف جسٹس کی صوابدید ہے، عدالت اسپیکرز کی درخواستوں میں اٹھائے گئے قانونی سوالات بھی دیکھ رہی ہے، از خود نوٹس سے پہلے بہت سنجیدہ معاملات سامنے آئے، ایک صدر کی جانب سے تاریخ دینا دوسرا اسپیکرز کی جانب سے درخواست آنا، عام طور پر شہری انصاف کیلئے عدالت آتے ہیں، کیا آپ کو معلوم ہے اس بار آئین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی۔