ہم خیال بینچ کی تباہ کاریاں

تحریر(نوید چودھری )

Feb 24, 2023 | 19:49:PM

عدالتوں کے رویے کے باعث پاکستان میں پہلے بھی کئی بحران پیدا ہوئے، ہر ادارے میں ہر طرح کے عہدیدار ہوتے ہیں اس لیے سب پر انگلیاں اٹھانا مناسب نہیں۔ 1990 کی دھائی کے آخر میں ہم خیال بینچ نے حکومت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا آغاز کیا تو سہولت کاروں کی شہ پر تمام حدود کراس کرتے ہوئے بالآخر خود ہی گڑھے میں گرگئے، جیسا کہ عرض کیا یہ صورتحال پہلی مرتبہ پیدا نہیں ہوئی لیکن اس مرتبہ ہائبرڈ تجربے کی ناکامی کے بعد بہت زیادہ گمبھیر ضرور ہوگئی ہے۔بعض جرنیل تو اپنی چھڑی کی طاقت کی سرشاری میں قانون کی زیادہ پروا نہیں کرتے مگر کئی جج بھی ہتھوڑا مار کر قانون توڑنے سے نہیں شرماتے۔ اس کی بنیادی وجہ تو یقیناً یہی ہے کہ ملک کو چلانے اور اس پر اصل حکومت کرنے والے دونوں ادارے یعنی فوج اور عدلیہ ہر طرح کے احتساب سے ماورا ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک بات ہے کہ جن کے پاس تمام اختیارات ہیں ان سے انکی کوتاہیوں تو کیا کارکردگی کے متعلق بھی پوچھا نہیں جاسکتا۔ فوج تو اپنے ادارہ جاتی مفادات کے تحت بہت سے کاموں میں مداخلت کرتی ہے مگر عدلیہ کے بعض کردار اپنی حدود سے باہر نکلنے کے شوق میں یا اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار بن کر حکومتوں اور سرکاری اداروں کے متعلق عجیب و غریب فیصلے دے کر پورے ملک کو جام کر دیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک زبردست تماشا سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم نے کھڑا کرکے پوری دنیا میں ریاست پاکستان کے لیے تمسخر کاسامان پیدا کردیا تھا، عمران خان پراجیکٹ فلاپ ہونے کے بعد یہ بات تو اب بچے بچے کے علم میں آچکی ہے کہ بہت سے کاموں میں جج اور جرنیل مل کر کھیلتے ہیں۔ 1990 کی دھائی میں بھی یہی چلن تھا، اس وقت براہ راست مارشل لا لگانے سے بچنے کے لیے آئین میں آٹھویں ترمیم شامل کی گئی کہ صدر جب مناسب سمجھے وزیر اعظم، حکومت اور اسمبلیاں توڑ کر سب کو گھر بھیج سکتا ہے۔ اس ترمیم کا بانی فوجی آمر جنرل ضیا الحق تھا جس نے پہلی بار خود ہی استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی حکومت فارغ کردی۔ اس ترمیم کا دوسری مرتبہ استعمال اسٹیبلشمنٹ کے گاڈ فادر صدر غلام اسحق خان نے 1990 میں وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کرکے کیا ۔ تیسری مرتبہ اسی صدر غلام اسحق خان نے 1993 میں وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم کی تو عدلیہ نے اسے بحال کردیا چونکہ یہ سارا کھیل پردے کے پیچھے بیٹھے جنرل کھیل رہے تھے اس لیے بحال ہوکر بھی حکومت چل نہ پائی ۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے جسٹس سجاد علی شاہ نے بحالی کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہہ کر نام کمایا کہ اگر سندھ کی وزیر اعظم بحال نہیں ہوئی تو پنجابی وزیر اعظم کو بھی بحال نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ بات اگلا الیکشن جیت کر پھر آنے والی وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو بہت اچھی لگی انہوں نے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا دیا ۔ کچھ ہی عرصے کے بعد انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھیلتے ہوئے وفاقی حکومت کو اتنا زیادہ تنگ کیا کہ حکومت اور چیف جسٹس کے درمیان نوبت بیان بازی تک آگئی ۔ فوج کا اشارہ ملتے ہی صدر فاروق لغاری نے اسمبلی توڑی تو اسی چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے فوری طور مہر تصدیق ثبت کردی ۔ اگلے الیکشن میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے وزیر اعظم بنے توتھوڑے ہی عرصے کے بعد ایجنسیاں پھر حرکت میں آگئیں ۔ یہ لڑائی بھی ایوان صدر اور چیف جسٹس کے ذریعے لڑی گئی۔ اس وقت حالات کچھ ایسے تھے کہ حکومت کو گھیر کر گرانا مشکل تھا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارلیمنٹ کے ذریعے متفقہ طور جمہوریت کی قاتل آٹھویں ترمیم ختم کرادی۔

یہ اقدام اسٹیبلشمنٹ پر بجلی بن کر گرا۔ جوابی کارروائی کرتے ہوئے صدر فاروق لغاری، آرمی چیف جہانگیر کرامت اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل ٹرائیکا نے ہر گزرتے دن کے ساتھ محاصرہ سخت کرنا شروع کردیا ۔ مقصد یہ تھا کہ حکومت خود ہی بھاگ جائے ۔ یہ ڈرٹی گیم چیف جسٹس کے ذریعے ہی کھیلی گئی ۔ واقعات کی ایک لمبی تفصیل ہے مختصر یہ کہ حکومت کا چلنا ناممکن بنا دیا گیا ۔چیف جسٹس نے مداخلت اس حد تک بڑھا دی کہ ایک موقع پر عاصمہ جہانگیر کو کہنا پڑا کہ جب سب کچھ چیف جسٹس نے سنبھال لیا ہے تو بہتر ہوگا بیرونی ممالک سے آنے والے سفارتی وفود سے ملاقاتیں بھی وہی کرلیں۔ اس وقت بھی چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے پوری سپریم کورٹ کو ایک طرف کرکے تین ہم خیال ججوں کا بینچ بنا کر مکمل عدالتی آمریت قائم کررکھی تھی۔ اتفاق ملاحظہ فرمائیں کہ آج بھی سب سے زیادہ شور ہم خیال بینچ کے حوالے سے ہے جسے بینچ فکسنگ کہا جاتا ہے۔ بہر حال اس وقت کے آج کے حالات میں اتنا فرق ضرور ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میںسینئر اور معتبر جج زیادہ تھے اور انہوں نے ہی عدالتی طریق کار کے مطابق ہم خیال بینچ کا منصوبہ ناکام بنایا تھاورنہ اسکی تباہ کاریوں سے کچھ بھی محفوظ نہیں رہنا تھا جبکہ آج سپریم کورٹ میں اچھے جج موجود ہونے کے باوجود کئی تقرریوں پر سوالیہ نشان ہیں۔بہر حال اب واپس آتے ہیں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے سازشی ٹولے کی طرف جس نے منصوبہ بنایا تھا کہ ان کا ہم خیال بینچ آٹھویں آئینی ترمیم بحال کردے گا اور حکم جاری ہوتے ہی صدر فاروق لغاری حکومت توڑ کر اسمبلیاں توڑ دیں گے ۔ آٹھویں ترمیم بحال کرنا بذات خود آئین توڑنے کے مترادف تھا ۔ ان حالات میں ڈگمگائے ہوئے قدموں کے ساتھ حکومت نے اپنی گردن ہم خیال ججوں کے ہاتھ میں دینے کے بجائے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس روز ہم خیال بینچ نے آٹھویں ترمیم بحال کی اسی روز سپریم کورٹ میں موجود ایک دوسرے بینچ نے اس حرکت کو فوری طور پر کالعدم اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اڑا دیا۔ اس اعصاب شکن کشمکش میں سول حکومت کی جانب سے سٹینڈ لینے کا نتیجہ بالترتیب چیف جسٹس، صدر مملکت اور آرمی چیف کی فراغت کی صورت میں برآمد ہوا۔ اگر اس وقت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتیں مقابلہ کرنے کے بجائے جھک جاتیں تو سپریم کورٹ کے ہم خیال بینچ نے غیر آئینی عمل کے ذریعے پورا سسٹم اسی وقت لپیٹ دینا تھا۔ اتحادی جماعتیں ڈٹ کر حکومت کے ساتھ کھڑی تھیں۔ چیف جسٹس نے ایک داﺅ کھیلتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تو اے این پی کے سربراہ خان عبدالولی خان نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انتباہ کیا کہ اب قوم کا بچہ بچہ توہین عدالت کرے گا۔اس طرح اس وقت کے ججوں کو استعمال کرکے سول حکومت الٹانے کا پلان بری طرح سے پٹا۔ اس کے بعد جب 1999 میں نواز شریف کی حکومت کو ختم کرکے مارشل لا لگایا گیا تو وہ خالصتاً جنرل مشرف کے کارگل بلنڈر کا شاخسانہ تھا جو اپنی جگہ الگ سے ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے ۔ حیرت ہے کہ جب مسلم لیگ ن کو بالکل اسی طرح کی سازشوں سے نمٹنے کا عملی تجربہ بھی ہے اس کے باوجود حد سے زیادہ کمزوری اور فرمانبرداری دکھا کر کیا حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لڑائی کسی مسئلے کا حل نہیں لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے سر جھکا کر جوتے کھاتے رہنے کے بعد اسے بخش دیا جائے تو اس سے زیادہ نادانی اور ذلالت کی بات کوئی ہو نہیں سکتی ۔ یہ ایک اہم سوال ہے اگر اداروں میں بیٹھے عہدیدار آئین قانون کو روند کر من مانیاں کریں۔ آئین ری رائٹ کرکے آئین کی خلاف ورزیاں کریں، حکومتی امور میں رکاوٹیں ڈالیں اور حکمرانوں کی تضحیک کریں تو پھر جواب کیا ہونا چاہیے، یقیناً قانون کے دائرے میں ہی ہر طرح کا جواب موجود ہے بنیادی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی میں اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے کا حوصلہ نہ ہو تو کوئی دوسرا مدد کیوں کرے گا؟ کیا دنیا نہیں جانتی کہ ہماری عدالتوں میں کیا ہوتا ہے، ٹاپ ٹین کی مراعات لینے کے باوجود عالمی رینکنگ میں 130 واں نمبر کرپشن اور نااہلی کے سبب ہے، انصاف کا دہرا معیار اندھوں کو بھی دکھائی دے رہاہے۔ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی بھرتی کا طریق کار اتنا ناقص ہے کہ پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کا الیکشن ہارنے والا ہائی کورٹ کا جج بن گیا ۔ حکمرانوں سے اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ حکومت لی ہے تو اختیارات بھی استعمال کریں ورنہ گھر چلیں جائیں ۔ پارٹی بن جانے والے اور آئین و قانون کے برعکس عمل کرنے والے ججوں کے خلاف ریفرنس بھیجنے سے کیا نیٹو نے روک رکھا ہے؟۔ جو لوگ پاکستان کو مذاق میں فوجستان کہتے ہیں اسے ججستان بھی کہہ لیا کریں گے ۔ ایسے حالات میںملک کا مذاق نہیں بنے گا تو اور کیا ہوگا ۔ ہر عمل کا ردعمل ہونا قانون فطرت ہے، بت بن کر لوگوں کو اپنے اوپر ہنسنے کا جواز فراہم کرنا جمہوریت اور سیاست ہی نہیں انسانیت کی بھی تو ہین ہے ۔ ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے 22کروڑ عوام کو بتا دیں کہ جس طرح عمران خان نے ملکی معیشت میں بارودی سرنگیں لگائی ہیں اسی طرح ثاقب نثار جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر چھوڑ کر گیا ہے ۔ صفائی کرنی ہے تو دھماکے بھی ہونگے اور گند بھی اچھلے گا۔ اس جہنم سے باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں .

مزیدخبریں