(24نیوز)دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کو 3 سال ہونے کو ہیں ، تحریک انصاف کی حکومت کو بنے بھی اڑھائی سال گزر چکے ہیں اور اڑھائی سال باقی ہیں،اس حکومت کے یہ اڑھائی سال عام آدمی پر بھاری گزرے ہیں،عام آدمی چیخ رہا ہے،اپوزیشن کا شور شرابہ ہے لیکن پی ٹی آئی کا ورکر ابھی بھی پر امید ہے،ابھی بھی ان کا گمان ہے کہ حالات بدلیں گے،بھوک نہیں ملک میں خوشحالی آئے گی،روزگار ملے گا،قرض ختم ہوجائیں گے ،احتساب کا نعرہ بھی سچ ثابت ہوگا۔یہ امید کس حد تک یقین کے قابل ہے اس کا جائزہ تو بنتا ہے!!
عمران خان وزیراعظم ہونے کے ساتھ کچھ وزارتوں کے خود وزیر بھی ہیں۔ سب سے اہم وزارت خزانہ ہے۔ ڈھائی سال تک یہ وزارت انہوں نے اپنے پاس رکھی۔ اب اپنے معاون کو فل وزیر کا درجہ دیا ہے۔ اسے دیکھا جائے تو ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ کتنا کام ہوا ہے۔ اس وقت خزانے کا حال یہ ہے کہ اب تک غیرملکی قرضوں میں دس ہزار ارب سے بھی زیادہ کا اضافہ ہوچکا ہے۔ معاشی حالت یہ ہے کہ 68 سال میں پہلی مرتبہ جی ڈی پی مائنس پر ہے۔ بجٹ تاریخ ساز خسارے میں ہے۔ ترقیاتی فنڈز بند ہیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ، راوی ریور سٹی، بنڈل آئی لینڈ، ڈیمز کے منصوبے، وغیرہ پر ڈھائی سال سے اجلاس ہورہے ہیں۔ کئی بار تقریبات بھی ہوئی ہیں۔ اتنا ضرور ہوا ہے کہ معیشت ’’ماشیت‘‘ بن چکی ہے۔ وقت کم ہے، مقابلہ سخت۔ کپتان کے چاہنے والوں کو امید ہے اچھا ہی ہوگا، کیونکہ جو کوئی نہیں کرسکتا وہی تو چیمپئن کرتا ہے۔
دوسری طرف مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ کبھی چینی کی مٹھاس بڑھتی ہے تو کبھی کم ہوجاتی ہے۔ آٹا گندم کی برداشت کے وقت بھی کھانے والوں سے دور رہا۔ جبکہ شوگرملز مالکان کی جانب سے چینی کی قیمت میں مزید اضافے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ شوگر اسکینڈل میں ملوث پہلے والی شخصیات قانون کی گرفت سے باہر ہیں اور اب پھر چینی کی قیمتوں میں اضافہ نجانے کیا رخ اختیار کرنے والا ہے۔ کھانے کے تیل اور گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ ڈھائی برسوں میں ایک بھی تو سکھ کا سانس عوام نہیں لے سکے۔ صرف وعدوں پر عوام کو ٹرخایا جارہا ہے۔ کبھی صحت کارڈ کے نام پر تو کبھی کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھروں کے نام پر، کپتان نے وہ کام کیا ہے جو کوئی نہیں کرسکا۔ مہنگائی، بیروزگاری کے روز بروز تحائف نے ملک سے متوسط طبقے کو ختم کردیا ہے۔ متوسط طبقہ اوپر نہیں گیا، نیچے آگیا۔ جب بھی ناکامی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ماضی میں ایسے تھا، ویسے تھا۔
وزیر تجارت بھی عمران خان خود ہیں۔ درآمدات کم کرنے اور برآمدات بڑھانے کا وعدہ ہوا تھا۔ برآمدات کتنی بڑھیں؟ اس کا اندازہ جی ڈی پی سے لگایا جاسکتا ہے۔ سب سے اہم اور اولین ترجیح احتساب تھا، جس کے وزیر عمران خان خود اور معاون شہزاد اکبر ہیں۔ انیس ماہ کی مشقت کے بعد ایک دھیلا بھی کرپٹ لوگوں سے نہیں نکلوایا جاسکا۔ نواز شریف اسی طرح ایون فیلڈ میں مقیم ہیں۔ اسحاق ڈار کی جائیدادیں اسی طرح قائم ہیں۔ زرداری صاحب کے محل اسی طرح سلامت ہیں۔ بی آر ٹی پشاور کے کھڈے شفافیت، میرٹ کا منہ چڑا رہے ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس کی فائلوں پر گرد جم چکی ہے۔ ہاں! اتنا ضرور ہوا ہے کہ اپوزیشن رہنما جیلوں کے چکر لگا رہے ہیں اور حکومت کو طوالت مل رہی ہے۔ اپوزیشن کی چیخیں ہیں تو کپتان کے ’’ہاسے‘‘ نہیں رک رہے۔ کیونکہ جو کوئی نہیں کرسکتا وہی تو چیمپئن کرتا ہے۔
پہلے پٹرول مہنگا کیا گیا۔ جب عالمی مارکیٹ میں سستا ہوا تو پاکستان سے غائب ہوگیا۔ ان کے معاون خاص خود اسی کاروبار سے منسلک ہیں۔ عمران خان اس کے وزیر ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور کمی کا نیا ٹرینڈ سیٹ ہوا ہے۔ کیونکہ جو کوئی نہیں کرسکتا وہی تو چیمپئن کرتا ہے۔وزیر صحت بھی عمران خان خود ہیں۔ ان کے دست راست اور شوکت خانم اسپتال کے سابق سربراہ ڈاکٹر فیصل سلطان ان کے معاون ہیں۔ دنیا بھر سے کورونا کے نام پر پیسے اکٹھے کیے جارہے ہیں، لیکن اب تک کوئی اسپتال نہیں بنا۔ صحت میں قابل فخر کام نہیں ہوا، بلکہ پہلے ادویہ غائب کی گئیں، پھر علاج مہنگا کردیا گیا۔ ادویہ میں اسمگلنگ کے الگ الزامات ہیں۔
سی پیک اور کنسٹرکشن کا شعبہ بھی ان کو دے دیا گیا جن کی اس میں دلچسپی تھی۔ افغانستان، چین، بھارت اور امریکا سے سارے معاملات طاقت ور ادارہ خود طے کررہا ہے۔ وزیراعظم صرف ٹویٹ کررہے ہیں۔ ظاہر ہے حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے۔ جب حکمرانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہاں ہے کارکردگی؟ تو جواب ملتا ہے کورونا وائرس۔ سابقہ حکمران جب بھی عوام میں جاتے تو کہتے عوام ہمارے ساتھ ہے، جمہور ہمارے پیچھے کھڑی ہے۔ کپتان جب بھی بولتے ہیں، کہتے ہیں فوج میری پشت پر کھڑی ہے، حکومت اور فوج ایک پیج پر ہے۔ عوام کی بات کبھی سامنے آئی؟
کپتان جب حکومت میں آئے تو نعرہ لگایا کہ ہم پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنائیں گے۔ کچھ وقت گزرا تو کہتے ہیں کہ ’’پاکستان میں چین جیسا نظام لانا چاہتا ہوں‘‘ جب یہ نعرہ پرانا ہوگیا تو فرماتے ہیں کہ ’’نئے پاکستان کو ایران جیسے انقلاب کی تلاش ہے‘‘ اب جبکہ امریکا کے اقتدار سے ٹرمپ چلے گئے ہیں تو ملک میں امریکی نظام لانے کی تجویز ہے۔ عوام خوف میں مبتلا ہیں کہ ہمارے کپتان کسی دن یہ نہ کہہ دیں کہ میں پاکستان کو صومالیہ جیسا بنانا چاہتا ہوں۔ کچھ بھی امید کی جاسکتی ہے-