میراثی کے گھر سے چور مرغا اٹھا لے گئے ، وہ تھانے پہنچا رپٹ درج کرائی گھر آگیا میراثیوں کی برادری کا مکھیا بولا کسی کا نام دیا ہے ، ظاہر ہے میراثی نے کسی کا نام نہیں دیا تھا تو اسے مشورہ دیا گیا ہمسائے کہ ساتھ جھگڑا ہوا تھا اُس کا نام دے دو ،میراثی واپس گیا تھانے میں ضمنی لکھوائی ،ہمسائے کا نام دے دیا واپس آیا تو بڈھا میراثی بولا صرف ہمسائے کا نام دینے سے کچھ نہیں ہوگا اس کے بیٹے کا نام لکھواؤ،جب لڑائی ہوئی تھی تو وہ دھمکیاں لگا رہا تھا ،میراثی دوبارہ تھانے گیا اور ایک مزید نام شامل کرایا اور لوٹ آیا ، گھر واپس پہنچا تو گھر والی نے کہا کہ چوری شدہ مُرغ ہمسائے کی گھر والی نے پکایا ہوگا اس کا نام بھی شامل کراؤ، میراثی یہ کام بھی کر آیا تو میراثی برادری کے ڈبو میراثی نے کہا مرغ تو پک گیا لیکن کھایا کس کس نے تھا ؟ اُس نے بتایا کہ ہمسائے کے بیٹے کا فلاں گھر کی لڑکی سے چکر ہے یہ سالن وہاں پہنچتے اُس نے خود دیکھا ہے اس کا نام بھی دے دو میراثی حکم بجا لایا چلتے چلتے ایک مرغ کا شوربہ کئی گھروں میں غائبانہ پہنچایا گیا اور پر چہ کٹایا گیا لیکن جب تفتیش مکمل ہوئی تو میراثی کا اپنا بچہ مرغے کے تکے کباب دوستوں کے ساتھ کھاتا پایا گیا ،یہ میراثی آج پولیس کی مار کے ڈر سے گھر میں قید ذہنی مریض بن چکا ہے۔
کچھ ایسا ہی چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے ساتھ بھی ہوا ہے اُن کی حکومت پاکستان کے آئین و قانون کے عین مطابق پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائی گئی ،عمران مخالف جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے یہ کارنامہ سرانجام دیا اس میں نہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی نہ عمران خان کی پارٹی کے کسی رکن نے عدم اعتماد میں حصہ لیا لیکن اس تحریک سے پہلے ہی عمران خان اور اُن کے خواریوں نے سابق صدر آصف علی زرداری پر الزامات لگانے شروع کیے ،پھر ان الزامات میں مسلم لیگ ن کو شامل کیا گیا ،لیکن میراثیوں کی برادری سے مشورہ ملا نواز شریف کو شامل کیے بغیر بات نہیں بننی یہ نام شامل کیا گیا تو ایک میراثی نے بڑی اینٹری ڈالنے کا کہا تو آئینی طور پر انتقال اقتدار کو متنازعہ بنانے کے لیے رجیم چیج کا نام دیا گیا اور جلسے میں کاغذلہرا کر کہا گیا کہ یہ تو بیرونی سازش تھی امریکا نے میری حکومت الٹائی دوسرے لفظوں میں جوکرارہا ہے امریکا کرارہا ہے کچھ لوگ صرف سوشل میڈیا پر اس جھوٹی بات کے خریدار بنے اور بات نہ بنی تو اس آئینی تبدیلی کا الزام کسی کا نام لیے بغیر میر جعفر ، اور میر صادق کے القابات کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ پر گھر دیا بیانیہ بنایا کہ یہ سب سہولت کار تھے اس لیے بیرونی طاقت کو موقع ملا لیکن بات پھر بھی ٹویٹر اکاؤنٹس سے آگے نہ بڑھ سکی البتہ عمران خان ٹویٹو سلطان ضرور بن گئے ۔
ضرور پڑھیں :میڈیا ،مسخرے ،ملکی مفاد
یہ سازشی تھیوری یہیں رُک جاتی تو کوئی بات بھی تھی لیکن ایک کے بعد وہ اس میں کریکٹر شامل کرتے رہے کبھی مسٹر ایکس اور مسٹر وائے کا نام لیا تو کبھی "ڈرٹی ہیری " کا نام دیا لیکن یہاں وہ یہ بھول گئے کہ ایسٹ ووڈ کی جس فلم کا وہ حوالہ دیکر ڈرٹی ہیری کہہ رہے تھے اس میں ایک ایماندار پولیس اہلکار کو مجرموں نے یہ نام دیا تھا اور یہاں بھی شاید ملک دشمنوں کے خلاف کام کرنے والے کو یہ لقب دیا جارہا تھا لیکن یہ سارا ہنگامہ ایک ناکام لانگ مارچ کے اختتام اور اپنی ہی پنجاب حکومتوں کو گرانے سے آگے نہ بڑھ سکا اور اس کے بعد جب وہ استعفے جن کی دھمکی لگاتے تھے وہ منظور ہونا شروع ہوئے تو اس پریشر گروپ نامی ون مین شو کی پارٹی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے باقی ماندہ 43 اراکین کے استعفے بھی قبول کر لیے ہیں اسطرح اب قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ناراض اراکین کا گروپ ہی باقی بچا ہے جو پارلیمانی پارٹی کی قیادت کریں گے ۔
یہ بھی پڑھیں :کون ہے محسن نقوی ۔۔۔
عمران خان اپنی سیاست کو صرف اپنے حوس اقتدار میں دفن کیے جارہے ہیں وہ اپنی الزام لگانے کی عادت ہاتھوں مجبور ہو کر ہر اُس شخص پر الزام لگاتے ہیں جن کے بارے میں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے انہیں نقصان پہنچ سکتا ہے وہ اپنے دور اقتدار سے آئینی انداز میں نکالے جانے کے دن سے لیکر آج تک بیسیوں لوگوں ، ملکوں اور کرداروں کے نام لے چکے لیکن ثبوت مانگیں جائیں تو وہ اُن کے پاس ہے نہیں ،ذہنی طور پر اتنے مفلوج ہو چکے ہیں کہ اسمبلی تحلیل کرانے کے بعد جب نگران وزیر اعلیٰ کے ناموں کا فیصلہ ہونا تھا تو انہوں نے ایسے تین نام دے دئیے جن میں سے دو ٹیکنیکلی ناک آؤٹ ہوائے اور تیسرے نے خود سے انکار کردیا اپوزیشن کی جانب سے جو دونام دئیے گئے اُن میں سے احد چیمہ بھی اپنی مدت رئٹائرمنٹ کے بعد سے دو سال مکمل نہ ہونے کے باعث اس عہدے کے لیے نااہل ٹھہرے تو الیکشن کمیشن کے پاس سید محسن رضا نقوی کے سوا کوئی آپشن بچا ہی نہیں اس لیے انہیں پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ مقرر کردیا گیا -
یہ بھی پڑھیں :نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی کون ہیں ؟
زمان پارک میں بیٹھے ہوئے ناکام سیاسی بڈھے جرنیل سے کب یہ برداشت ہونا تھا اور اس کے بعد میراثی کی ایف آئی آر کی طرح عمران خان نے اپنی قوم یوتھ سے خطاب فرمایا اور انکشاف کیا کہ رجیم چینج کا مرکزی کردار تو محسن نقوی ہے ، یعنی اپنی حکومت کے خاتمے سے لیکر اب تک وہ امریکا ، جنرل باجوہ ، آصف علی زرداری ، مولانا فضل الرحمٰن ، اور ان گنت ناموں کو مرکزی کردار بنا چکے ہیں اور اُن کی محبت میں اندھے لوگ اس ہر بات کوسچ مانتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ان باتوں کے گوبر کو بھی گلاب جامن سمجھتے ہیں وہ اس بات کو بھی پھیلائیں گے لیکن عوام اب سمجھتے ہیں کہ یہ صرف ٹویٹر ٹرینڈ تک کے سیاسی لیڈر ہیں عوام ان کی کھوکھلیبوتوں کو سمجھ چکے ہیں۔
نوٹ : ادارے کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضرور ی نہیں۔ادارہ