(حاشروڑائچ)سائفر کیس میں اہم گواہ سابق سفیر اسد مجید کے بیان کی کاپی 24 نیوز نے حاصل کرلی،اسد مجید نے بیان ریکارڈ کروایا کہ ڈونلڈ لو سے ملاقات کی ساری گفتگو سائفر کی صورت میں اسلام آباد بھیجی گئی،سائفر ٹیلی گرام میں کہیں پر سازش یا دھمکی کا کوئی ذکر نہیں تھا، سائفر کو سازش قرار دینے کا فیصلہ اس وقت کی سیاسی قیادت کا تھا۔
سابق سفیر اسد مجید نے گزشتہ روز خصوصی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کروایا تھا،اسد مجید نے خصوصی عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہاکہ جنوری 2019 سے مارچ 2022 تک امریکا میں بطور سفیر تعینات تھا، 7 مارچ کو ڈونلڈ لو کے ساتھ پاکستان ہاؤس میں نے ورکنگ لنچ کا انتظام کیا تھا، ملاقات کا مقصدکووڈ19 کے پاکستانی سفارتکاروں کو درپیش مسائل تھا،ملاقات میں ڈپٹی ہیڈ آف مشن نوید صفدر بخاری بھی موجود تھے،اس کے علاوہ ملاقات میں ملٹری اتاشی بریگیڈئیر نعمان اعوان اور سیاسی قونصلر قاسم محی الدین بھی شامل تھے۔
اسد مجید نے کہاکہ ڈونلڈ لو سے ملاقات ڈیڑھ گھنٹے پر محیط تھی،ملاقات میں شامل دونوں فریقین کو معلوم تھا منٹس آف میٹنگ ریکارڈ ہورہے ہیں،ڈونلڈ لو سے ملاقات کی ساری گفتگو سائفر کی صورت میں اسلام آباد بھیجی گئی،سائفر ٹیلی گرام میں کہیں پر سازش یا دھمکی کا کوئی ذکر نہیں تھا، سائفر کو سازش قرار دینے کا فیصلہ اس وقت کی سیاسی قیادت کا تھا،سابق سفیر نے کہاکہ سائفر ٹیلی گرام فارن سیکرٹری کو بھیجا گیا انہوں نے تمام متعلقہ افراد سے شیئر کیا،مجھے 22 اپریل 2022 کو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بلایا گیا،نیشنل سیکورٹی کمیٹی نے متفقہ طور پر پاکستان میں امریکن ایمبیسی اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ واشنگٹن ڈی سی کو ڈی مارش کرنے کی سفارش کی۔
اسد مجید نے کہاکہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میں فیصلہ ہوا کہ سائفر کوئی سازش نہیں تھی، وزارت خارجہ نے بھی سائفر کو سازش قرار نہیں دیا تھا،سائفر ایپیسوڈ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات شدید متاثر ہوئے،سائفر کو سازش قرار دینا پاک امریکا تعلقات کیلئے سیٹ بیک تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ن لیگ کو بڑا جھٹکا، پی پی 36 سے سابق ایم پی اے کا اعلان بغاوت