(امانت گشکوری) چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کسی نے پی ٹی آئی امیدواروں کو غلط مشورہ دیا، مشورہ دینے والے پر کیس کریں،مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو بھی سیاسی جماعت مان لیا جائے تو کیا حرج ہے،سیاسی جماعتوں کی تو حوصلہ افزائی ہونی چاہیے،آزاد امیدوار اگر ایسی جماعت میں شامل ہوں جو انتحابات نہ لڑی ہو تو کیا ہوجائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ بولے کہ اس طرح تو پیسے والے لوگ سیاسی جماعتیں خرید سکتے ہیں،کوئی بندہ ایک جماعت خرید کر آزاد امیدوار شامل کر لے تو ووٹرز کا کیا ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سب کے درمیان پی ٹی آئی کہاں ہے؟وکیل سلمان اکرم راجہ بولے کہ کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہی ہیں،جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے، چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کیا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ، جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ راجہ صاحب آپ اس عدالت کے سامنے ہیں جو بنیادی حقوق کی محافظ ہے،اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے الیکشن سے متعلق بھی کیس زیر التوا ہے،ہر غیر متعلقہ کیس پر از خود نوٹس لیا جاتا رہا مگر یہ تو پرفیکٹ کیس تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکیس دئیے کہ میں جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں، مگر میری رائے میں پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کو آکر کہنا چاہئے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں، جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ کیا ایسے حالات تھے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو سنی اتحاد میں جانا پڑا؟کیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ ماننے کے فیصلے کیخلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سنی جانی چاہیے؟
سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کیلئے رجوع کیا،ہائیکورٹ نے کہا انتخابات قریب ہیں مداخلت نہیں کر سکتے،الیکشن کمشین نے 2 فروری کا حکم 7 فروری کو جاری کیا،سپریم کورٹ نے ہماری اپیل واپس کر دی،یہ اہم ترین معاملہ تھا لیکن آپ نے اپیل دائر نہیں کی، چیمبر اپیل دائر نہ کرنے سے اہم ترین معاملہ غیرموثر ہوگیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے اپیل کی واپسی تسلیم کر لی تو بات ختم،اگر رجسٹرار آفس کے کسی اقدام پر اعتراض تھا تو چیلنج کر دیتے،رجسٹرار آفس اور سپریم کورٹ میں فرق ہوتا ہے،جسٹس عائشہ ملک بولیں کہ رجسٹرار آفس کا کیا اعتراض تھا؟سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دیئے تھے، رجسٹرار آفس نے کہا انتخابی عمل نشان الاٹ کرنے سے آگے بڑھ چکا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا چیمبر اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائے عدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کر سکتی؟عدالت خود کو اپیلوں تک کیوں محدود کر رہی ہے،آرٹیکل 184/3 کا نوٹس لینے میں کیا امر مانع ہے؟جسٹس یحیی آفریدی بولے کہ سنی اتحاد کونسل اگر بیان دے کہ کنول شوزب انکی امیدوار ہونگی تو درخواست سن سکتے ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ یہ بتائیں 86 امیدوار ایک فرد والی جماعت میں کیوں شامل ہوئے،کیا وجہ تھی کہ پی ٹی آئی کے امیدوار دوسری جماعت میں گئے۔
چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجبوری ہو تو کیا آئین و قانون کو نہیں مانا جاتا،کیا مجبوری میں تمام قوانین و اصول توڑ دیئے جاتے ہیں،سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ ہمیں بتایا گیا کہ انتخابی نشان واپس ہوگیا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی،پی ٹی آئی امیدواروں نے مجبوری میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی،وکلا نے یہ فیصلہ کیا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت میں کوئی حرج نہیں،میری رائے میں کسی آئینی تشریح کی ضرورت نہیں،آئین کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا کہتا ہے پارلیمانی پارٹی میں نہیں۔
ضرورپڑھیں:’پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کیوں نہ کرائے‘
جسٹس منیب اختر بولے کہ پارلیمانی پارٹی تو اس وقت ابھی موجود نہیں ہوتی اس لیے ایسا ہے،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعت وہ ہے جو رجسٹرڈ ہو، سیاسی جماعت کیلئے الیکشن میں حصہ لینا لازمی نہیں، جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ الیکشن میں حصہ لیے بغیر کوئی جماعت سیاسی کیسے ہوگی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سلمان راجہ صاحب آپ کا دل پی ٹی آئی میں ہے بحث سنی اتحاد کونسل کی کر رہے ، یہ تضاد ہمیں نظر آرہا ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کہا جا رہا تھا پی ٹی آئی کالعدم ہو جائے گی، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی میں کوئی وکیل نہ ہوتا پہلا الیکشن لڑ رہی ہوتی تو ہم یہ مفروضے سنتے،مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا،کل کوئی کہے گا مجبوری ہے ٹریفک سگنل پر رک نہیں سکتا،کسی نے پی ٹی آئی امیدواروں کو غلط مشورہ دیا۔سلمان اکرم راجہ بولے کہ ایسا ہو سکتا ہے مگر یہ سب کا فیصلہ تھا،چیف جسٹس کا سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مشورہ دینے والے پر کیس کریں،آئین پاکستان کے لوگوں کیلئے بنایا گیا ہے،آئین کو سمجھنے کیلئے کسی وکیل کی ضرورت نہیں،آئین کی اہمیت ہے 4 ججز بٹھا کر آئین کو بدلا نہیں جاسکتا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ یہاں عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا گیا،فاطمہ جناح نے انتخابات میں حصہ لیا تو تب بھی عوام سے حق چھینا گیا،مکمل سچ کوئی نہیں بولتا،وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ سیاسی بیانات میں نہیں جاؤنگا ،آئین و قانون پر دلائل دونگا،ہم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا الیکشن کمیشن بھی گئے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی کوئی غلط تشریح کرے تو ہم کیا کر سکتے ہیں،بار بار سپریم کورٹ کا نہ کہیں ،رجسٹرار کے پاس جوڈیشل پاور نہیں،جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ رجسٹرار کے اعتراضات کیخلاف چیمبر اپیل دائر کیوں نہیں کی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سلمان اکرم راجہ کو آئین کی کتاب دکھا دی،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں نے بنایا ہے،آئین جو واضح ہے اس پر عمل کریں یہ سیدھا سادہ آئین ہے،آپ بار بار عوامی منشا کی بات کر رہے ہیں پھر تو سب نشستوں پر الیکشن ہونا چاہیے،جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عوامی منشا کی ہی بات کریں لوگوں نے ووٹ تو پی ٹی آئی کو دیا تھا،کیا ووٹرز کو پتہ تھا آپ سنی اتحاد کونسل میں جائیں گے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ سلمان اکرم راجہ صاحب سچ بول دیں۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ہر کوئی سچ کو دبانا کیوں چاہتا ہے؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ ایسا کہنا کہ 86 ممبران کی کوئی حیثیت نہیں اسمبلی کو غیر متوازن بناتا ہے، آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی جوائن کر سکتا ہے، آئین کا مقصد پارلیمنٹ کو کسی سیاسی جماعت سے نمائندگی کروانا ہے، جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہآزاد امیدواروں کو سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہیے اور ایسی بات سمجھ بھی آتی ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ دیا جاتا ہے،دیکھنا ہوگا آزاد امیدواروں کا کسی جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہے یا نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ تین روز میں آزاد امیدواروں کو کسی جماعت میں شامل ہونا ہے لیکن کچھ ہوگا تو شامل ہوں گے، سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ آزاد امیدوار 3 روز بعد بھی شامل ہوسکتے یہ آزاد امیدواروں کی مرضی ہے،آزاد امیدوار کوئی سیٹ نہ جیتنے والی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہوسکتے ہیں،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے کیا غلط جماعت منتخب کی کہ آپ کو تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہیے تھا، ہر سیاسی جماعت کا اپنا منشور ہوتا ہے،ملک کیلئے کیا اچھا ہے وہ سوچنا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو بھی سیاسی جماعت مان لیا جائے تو کیا حرج ہے،سیاسی جماعتوں کی تو حوصلہ افزائی ہونی چاہیے،آزاد امیدوار اگر ایسی جماعت میں شامل ہوں جو انتحابات نہ لڑی ہو تو کیا ہوجائے گا،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس طرح تو پیسے والے لوگ سیاسی جماعتیں خرید سکتے ہیں،کوئی بندہ ایک جماعت خرید کر آزاد امیدوار شامل کر لے تو ووٹرز کا کیا ہوگا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہیں کہ آپ سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر انتخاب لڑے،اگر آزاد امیدوار تھے تو ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس نے کوئی سیٹ جیتی ہو،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جو آزاد امیدوار شامل ہوں گے وہ جیتی ہوئی سیٹیں تصور ہوں گی، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کون امیدوار ہیں کون سی سیاسی جماعتیں ہیں،عوام کو معلوم ہو سنی اتحاد ہے کون؟ کبھی حکومت میں نہیں آئی،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 25 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں،عوام نے سیاسی جماعتوں کے منشور نہیں پڑھے ہوئے۔
وقفے کے بعد کیس کی سماعت میں کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کہنا کہ 86 ممبران کی کوئی حیثیت نہیں اسمبلی کو غیر متوازن بناتا ہے،آزاد امیدوار کسی بھی وقت اسمبلی کو جوائن کر سکتا ہے، آئین کا مقصد پارلیمنٹ کو کسی سیاسی جماعت سے نمائندگی کروانا ہے،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ آزاد امیدواروں کو سیاسی جماعت میں شامل ہونا چاہیے اور ایسی بات سمجھ بھی آتی ہے،جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آزاد امیدواروں کو بھی ووٹ دیا جاتا ہے،دیکھنا ہوگا کہ آزاد امیدواروں کا کسی جماعت سے منسلک ہونا ضروری ہے یا نہیں،
جسٹس جمال مندوخیل بولے کہ تین روز میں آزاد امیدواروں کو کسی جماعت میں شامل ہونا ہے لیکن کچھ ہوگا تو شامل ہوں گے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آزاد امیدوار تین روز بعد بھی شامل ہوسکتے یہ آزاد امیدواروں کی مرضی ہے،آزاد امیدوار کوئی سیٹ نہ جیتنے والی سیاسی جماعت میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے کیا غلط جماعت منتخب کی کہ آپ کو تحریک انصاف میں شامل ہونا چاہیے تھا، ہر سیاسی جماعت کا اپنا منشور ہوتا ہے،ملک کیلئے کیا اچھا ہے وہ سوچنا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر سنی اتحاد کونسل کو بھی سیاسی جماعت مان لیا جائے تو کیا حرج ہے،سیاسی جماعتوں کی تو حوصلہ افزائی ہونی چاہیے،آزاد امیدوار اگر ایسی جماعت میں شامل ہوں جو انتحابات نہ لڑی ہو تو کیا ہوجائے گا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی ٰ بولے کہ اس طرح تو پیسے والے لوگ سیاسی جماعتیں خرید سکتے ہیں،کوئی بندہ ایک جماعت خرید کر آزاد امیدوار شامل کر لے تو ووٹرز کا کیا ہوگا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کہیں کہ آپ سیاسی جماعت کے امیدوار کے طور پر انتخابات لڑے،اگر آزاد امیدوار تھے تو ایسی سیاسی جماعت میں شامل ہوں جس نے کوئی سیٹ جیتی ہو،وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ جو آزاد امیدوار شامل ہوں گے وہ جیتی ہوئی سیٹیں تصور ہوں گی،چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ عوام کو معلوم ہونا چاہیے کون امیدوار ہیں کون سی سیاسی جماعتیں ہیں،عوام کو معلوم ہو سنی اتحاد ہے کون کبھی حکومت میں نہیں آئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ 25 چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں ہیں،عوام نے سیاسی جماعتوں کے منشور نہیں پڑھے ہوئے۔