رمضان المبارک میں فالج کا امکان کیوں کم ہوتا ہے؟

Mar 24, 2022 | 12:34:PM
رمضان میں فالج کے امکان کم کیوں ہوتے ہیں،فائل فوٹو
کیپشن: رمضان میں فالج کے امکان کم کیوں ہوتے ہیں،فائل فوٹو
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(ویب ڈیسک)رمضان میں فالج کے کیس کم کیوں ہو جاتے ہیں اس بات کا انکشاف آغا خان یونیورسٹی سے وابستہ معروف نیورولوجسٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع نے کراچی میں جاری آٹھویں بین الاقوامی ڈائبیٹیز اینڈ رمضان کانفرنس 2022 کے دوسرے روز سائنٹیفک سیشن میں کیا۔

ورلڈ اسٹروک آرگنائزیشن کے مطابق،عالمی سطح پر 25 سال سے زائد عمر کے ہر 4 میں سے ایک فرد کو آنے والی زندگی میں فالج کے خطرات کا سامناکرنا پڑسکتا ہے۔ماہرین کے مطابق فالج کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ 

اسکیمک اسٹروک: اسکیمک اسٹروک فالج کی سب سے عام قسم ہے۔ 80فیصد سے زائد مریض فالج کی اسی قسم کا شکار ہوتے ہیں۔ فالج کی یہ قسم اس وقت حملہ آور ہوتی ہے جب دماغ کی شریانیں تنگ یا بلاک ہوکر دماغ کو خون کی فراہمی میں شدید کمی واقع کردیتی ہیں۔

ہیمریجک اسٹروک: ہیمریجک اسٹروک اس وقت حملہ آور ہوتا ہے جب کمزور خون کی نالی یا رگیں پھٹ جاتی ہیں، جس کے سبب خارج ہونے والا خون دماغ تک پہنچنے لگتا ہے۔ 10سے 20 فیصد اسٹروک کیسز فالج کی دوسری قسم کے ہیں۔

 فالج کے عام اسباب میں ہائپرٹینشن،کولیسٹرول کی بڑھی ہوئی سطح،بیماری کی موروثی وجوہات،تمباکونوشی،موٹاپا،عمرشامل ہے۔

رمضان میں دیگر مہینوں کے مقابلے میں فالج کے کیس کم ہو جاتے ہیں جس کی بنیادی وجہ اکثر لوگوں کا تمباکو نوشی سے گریز، بہتر بلڈ پریشر اور شوگر کنٹرول اور روزہ رکھنے کے نتیجے میں کولیسٹرول کا کم ہونا ہے۔ دو روزہ بین الاقوامی ڈائبیٹیز اینڈ رمضان کانفرنس بقائی انسٹی ٹیوٹ آف ڈائیبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی اور ڈائبٹیز اینڈ رمضان انٹرنیشنل لائسنس کے تعاون سے منعقد کی جارہی ہے اور اس کانفرنس سے ملکی اور بین الاقوامی ماہرین صحت بشمول پروفیسر ڈاکٹر ڈاکٹر طاہر حسین، پروفیسر سعید مہر، ڈاکٹر زاہد میاں، ڈاکٹر سیف الحق، پروفیسر زمان شیخ، ڈاکٹر بلال جمیل، ڈاکٹر مسرت ریاض، مفتی نجیب خان، ڈائبیٹک ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکرٹری جنرل پروفیسر عبد الباسط، پروفیسر یعقوب احمدانی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔

معروف نیورولوجسٹ پروفیسر محمد واسع کا کہنا تھا کہ رمضان کے روزے رکھنے کے ذہنی اور اعصابی صحت کے لیے بے شمار فوائد ہیں اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ روزے رکھنے سے گھبراہٹ، ڈپریشن اور دیگر نفسیاتی بیماریوں میں کمی واقع ہوتی ہے، ادویات کے ساتھ ساتھ ساتھ روزے رکھنے سے شیزوفرینیا کے مرض میں بھی افاقہ ہوتا ہے۔

دوسری جانب روزہ مختلف اعصابی بیماریوں بشمول پارکنسنز اور الزئمرز کی بیماریوں سے بچاؤ میں بھی کافی حد تک معاونت فراہم کرتا ہے، روزہ رکھنے سے نیند بہتر ہوتی ہے جبکہ حال ہی میں کی گئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کورونا کی وبا کے نتیجے میں جن لوگوں کی چکنے کی حس متاثر ہوئی تھی انہیں روزے رکھنے سے فائدہ ہوا ہے۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گردوں کے امراض کے ماہر ڈاکٹر بلال جمیل کا کہنا تھا کہ گردوں کی بیماری کا شکار ایسے مریض جنہیں دل کی بیماری بھی لاحق ہو انہیں روزے رکھنے سے گریز کرنا چاہیے لیکن صرف گردوں کی بیماری میں مبتلا افراد اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے روزے رکھ سکتے ہیں۔

معروف فزیشن پروفیسر ڈاکٹر طاھر حسین کا کہنا تھا کہ کانفرنس کے دوران مختلف سائنٹیفک سیشنز میں پیش کیے گئے مقالوں سے ثابت ہوا ہے کہ دل، گردوں، ذیابطیس، بلڈ پریشر کی بیماریوں میں مبتلا افراد اور کسی حد تک حاملہ خواتین بھی روزے رکھ سکتی ہیں لیکن ایسے مریضوں کو رمضان کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے اپنے معالجین سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔

معروف ماہر امراض ذیابطیس ڈاکٹر مسرت ریاض کا کہنا تھا کہ شریعت کے مطابق ایسی حاملہ خواتین جنہیں روزہ رکھنے کے نتیجے میں اپنی صحت یا اپنے ہونے والے بچے کو کسی طرح کا ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو انہیں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے لیکن چونکہ اکثر حاملہ خواتین روزہ رکھنے پر اصرار کرتی ہیں اس لیے انہیں اپنی گائناکالوجسٹ اور ماہر امراض ذیابطیس سے مشورہ ضرور کرنا چاہیے۔

معروف ماہر امراض ذیابطیس پروفیسر زمان شیخ کا کہنا تھا دل کی بیماریوں میں مبتلا ایسے مریض جو کہ باقاعدگی سے علاج کروا رہے ہو اور ان کی صحت بہتر ہو وہ روزہ رکھ سکتے ہیں لیکن ایسے مریض جن کے معالجین یہ سمجھیں کہ ان کی صحت اس قابل نہیں ہے کہ وہ روزے رکھ سکیں انہیں روزے رکھنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔

بقائی انسٹیٹیوٹ آف ڈائبیٹولوجی اینڈ اینڈوکرائنولوجی وابستہ ڈاکٹر سیف الحق کا کہنا تھا کہ دنیا میں مسلمانوں کی تعداد ایک ارب نوے کروڑ ہے جن میں سے تقریبا پندرہ کروڑ افراد روزے رکھتے ہیں، ان میں سے تقریبا 86 فیصد مسلمان رمضان کے مہینے میں صرف 15 روزے رکھتے ہیں جبکہ 61 فیصد مسلمان رمضان میں پورے مہینے کے روزے رکھتے ہیں۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دارالعلوم کراچی کراچی سے وابستہ مفتی نجیب خان کا کہنا تھا کہ مختلف بیماریوں میں مبتلا افراد کو روزے رکھنے کے حوالے سے ڈاکٹروں سے مشورہ کرنا چاہیے کیونکہ علماء کرام کے مقابلے میں ڈاکٹر انہیں بہتر مشورہ دے سکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ روزے کی حالت میں انگلی میں سوئی چبھو کر خون نکال کر چیک کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا، اسی طریقے سے آنکھ اور کان میں دوائی کے قطرے ڈالنے اور انجکشن لگوانے سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی مریض کی جان پر بن آئے تو اسے روزہ توڑ دینا چاہیے اور ایسی حالت میں اسے صرف قضا روزہ رکھنا پڑے گا۔

 یہ بھی پڑھیں:    آنکھیں بولتی ہیں ۔ شخصیت کے بارے میں جانیے!!!