(24نیوز)وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد حسین چودھری نے کہا ہے کہ شطرنج کا جو کھیل اپوزیشن نے شروع کیا ہے ،اسے ختم ہم کریں گے، اتحادی حکومت کا حصہ ہیں اور حکومت کا حصہ ہی رہیں گے، بار ایسوسی ایشن کو کسی ایک سیاسی جماعت کی سبسڈری نہیں بننا چاہئے، پاکستان کی تمام بار کونسلز کو سپریم کورٹ بار کے ایسے لوگوں کے رویئے اور کردار کا نوٹس لیتے ہوئے ان کے محاسبے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان قابل احترام ہیں، ن لیگ نے سوشل میڈیا پر اس بنچ کے خلاف مہم شروع کی جس کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سپریم کورٹ پر مکمل اعتماد ہے، امید ہے کہ معاملات آئین اور قانون کے مطابق آگے بڑھیں گے۔ فواد حسین نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے رکن کی حیثیت سے ذاتی طور پر میرے سپریم کورٹ بار کی باڈی پر شدید تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار تمام لوگوں سے ووٹ لے کر منتخب ہوتی ہے، بار ایسوسی ایشن کو کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایتی نہیں بننا چاہئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کی تمام بار کونسلز کو سپریم کورٹ بار کے ایسے لوگوں کے رویئے اور کردار کا نوٹس لیتے ہوئے ان کے محاسبے کے لئے آگے بڑھنا چاہئے۔ فواد حسین نے کہا کہ پوری دنیا میں بار ایسوسی ایشنیں سیاسی معاملات پر خود کو بالاتر رکھتے ہوئے کردار ادا کرتی ہیں لیکن یہاں بار ایسوسی ایشن نے اپنے آپ کو ایک سیاسی جماعت سے جوڑ لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی باڈی میں ایک دو لوگوں نے سپریم کورٹ بار کو یرغمال بنا رکھا ہے، انہوں نے کہا کہ وکلانے بار ایسوسی ایشن کی موجودہ قیادت سے نفرت کا اظہار کیا ہے، اس پر مزید آواز اٹھے گی۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہماری تمام تر توجہ 27 مارچ کے جلسہ پر ہے، 27 مارچ کو پی ٹی آئی کا تاریخی جلسہ ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جلسوں کے حوالے سے فیصلے میں واضح گائیڈ لائنز دے رکھی ہیں، اپوزیشن نے جلسے کی تاحال درخواست نہیں دی، گزشتہ روز اپوزیشن نے اپنا پروگرام بھی تبدیل کر دیا ہے، لگتا ہے کہ اپوزیشن جلسہ نہیں کرے گی، 27 مارچ کو صرف پی ٹی آئی کا جلسہ ہوگا۔ فواد حسین نے کہا کہ وزیراعظم کے انتخاب یا تحریک عدم اعتماد سمیت فنانس بل پر ایم این اے کا ووٹ پارٹی کا اجتماعی ووٹ ہے جو پارلیمانی لیڈر کے ذریعے استعمال ہوتا ہے، اسی نکتہ پر سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے دلائل جاری ہیں، اگر اس ووٹ پر پابندی نہ ہوتی تو پھر آرٹیکل 63 اے لانے کا فائدہ ہی نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مستقبل اس بات سے جڑا ہوا ہے کہ عدلیہ ہارس ٹریڈنگ پر کارروائی کرے۔ انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیا، اس کیس میں سپریم کورٹ نے ساری بات وضاحت سے بیان کی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ میں ملوث لوگ اپنا ووٹ استعمال کر سکیں گے یا نہیں اس بارے میں فیصلہ سپیکر کریں گے لیکن تاحیات نااہلی سے متعلق فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کیس پاکستان کی سیاست کے مستقبل کی بنیاد ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت میں سندھ ہاﺅس کے معاملے پر بھی بات چیت ہوئی، پولیس نے سندھ ہاﺅس پر جو ایکشن لیا، عدالت اس سے مطمئن ہے اور اس معاملے کو ختم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہاﺅس میں جو بدبودار کھیل کھیلا گیا ہے اس کا مداوا نہیں ہوا، سندھ ہاﺅس میں جس طرح سے ضمیر فروشی ہو رہی ہے اسے روکنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے کچھ لوگ اپنے غصہ پر قابو نہیں رکھ سکے اور انہوں نے سندھ ہاﺅس کے باہر احتجاج کیا، پولیس نے اس پر کارروائی کی اور یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سینٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کے لئے ووٹ خریدنے کی ویڈیوز آئیں جو الیکشن کمیشن بھیجی گئیں لیکن اس پر کارروائی نہیں ہوئی، اگر اس وقت کارروائی ہوتی تو آج لوگ خریدنے اور بیچنے کا دھندا بند ہو جاتا اور ہمیں ہارس ٹریڈنگ کا دوبارہ سامنا نہ کرنا پڑتا۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن سے کہا تھا کہ ووٹ کی ٹریس ایبلٹی کو یقینی بنایا جائے، اگر کسی پر سینٹ الیکشن میں ووٹ بیچنے کا الزام لگتا ہے تو اس کا ووٹ ٹریس کیا جا سکے، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کیا جس کی وجہ سے آج اس بحران کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لئے سپریم کورٹ کا یہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے سے پاکستان میں ایک نئی سیاست کی بنیاد رکھی جائے گی، ووٹ کاسٹ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ سپیکر کریں گے جبکہ نااہلی کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر منتخب ہو کر پارلیمان میں آئے اور اسے پارٹی پالیسی سے اختلاف ہو تو وہ مستعفی ہو کر عوام کے پاس دوبارہ جائے، الیکشن لڑے اور عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آئے لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ عمران خان کے نام پر یا کسی پارٹی کے منشور پر الیکشن جیت کر آئے اور پھر اسی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کابینہ کا حصہ ہیں، دو دو وزارتیں ان کے پاس ہیں، جب تک اتحادی کابینہ میں ہیں تو ظاہر ہے وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے تاحیات نااہلی سے متعلق ہے، اس بارے میں فیصلہ سپریم کورٹ نے کرنا ہے، سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ اس سے پہلے فیصلہ دے چکا ہے کہ اگر نااہلی کی مدت آئین میں درج نہیں ہے تو وہ تاحیات ہے۔ یہ فیصلہ آرٹیکل 63 پر ہے، آرٹیکل 63 اے پر نہیں تھا، ہم تشریح کے لئے آئے ہیں کہ آرٹیکل 63 کا فیصلہ 63 اے پر بھی لاگو ہوگا یا نہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی متوسط طبقے کی پارٹی ہے، ہماری کوئی ڈنڈا بردار فورس نہیں، ہم جے یو آئی جیسی جماعت اور سپریم کورٹ پر حملے کرنے والی پارٹیاں نہیں، پی ٹی آئی میں پڑھا لکھا نوجوان شامل ہے، ہم اپنی اخلاقیات سے جڑے رہیں گے۔
یہ بھی پڑھیں۔
شطرنج کا جو کھیل اپوزیشن نے شروع کیا ہے ،اسے ختم ہم کریں گے، فواد چودھری
Mar 24, 2022 | 18:44:PM