(ویب ڈیسک) بھارتی پولیس ایک علیحدگی پسند رہنما کی تلاش میں ہے جنہوں نے ایک آزاد سکھ وطن کے مطالبے کو دہرایا ہے۔ اس مطالبے کے بعد شمال مغربی پنجاب کی ریاست میں تشدد کے خدشات نے جنم لیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پولیس نے ایک 30 سالہ مبلغ امرت پال سنگھ اور اُن کے ساتھیوں پر ریاست میں انتشار کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔
پنجاب کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سکھچین سنگھ گل نے بتایا کہ حکام نے ہزاروں نیم فوجی دستوں کو ریاست میں تعینات کیا ہے اور بدامنی کو روکنے کیلئے کچھ علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ سروسز معطل کردی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے اب تک امرت پال سنگھ کے 154 حامیوں کو گرفتار کیا ہے اور 10 بندوقیں اور گولہ بارود ضبط کیا ہے۔
پولیس کی جانب سے تلاشی کا عمل شروع کرنے کے بعد سے امرت پال سنگھ فرار ہیں۔
امرت پال سنگھ جن کا کہنا ہے کہ وہ خالصتان تحریک کی حمایت کرتے ہیں، نے فروری میں اُس وقت توجہ حاصل کی جب ان کے سینکڑوں حامیوں نے جیل میں بند ایک ساتھی کی رہائی کا مطالبہ کرنے کیلئے تلواروں اور بندوقوں کے ساتھ پنجاب میں ایک پولیس سٹیشن پر دھاوا بول دیا۔
یہ بھی پڑھیے: لندن میں بھارتی ہائی کمیشن خالصتان کے نعروں سے گونج اُٹھا
امرت سنگھ کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں، جو برسوں سے متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں ٹرک چلاتے رہے ہیں۔
وہ 2022ء میں پنجاب میں منظرعام پر آئے اور انہوں نے سکھوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے مارچ کی قیادت شروع کی جو انڈیا کی آبادی کا تقریباً 1.7 فیصد ہیں۔
ان کی تقاریر خالصتان تحریک کے حامیوں میں تیزی سے مقبول ہوئیں جس پر انڈیا میں پابندی ہے۔ حکام انہیں اور ان سے منسلک گروپوں کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں۔
اگرچہ یہ تحریک گزشتہ برسوں میں ختم ہو چکی ہے لیکن اسے اب بھی پنجاب اور اس سے باہر کچھ حمایت حاصل ہے بشمول کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک میں جہاں بڑے پیمانے پر سکھ آباد ہیں۔
امرت پال سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ ایک سکھ عسکریت پسند رہنما جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے سے متاثر ہیں جن پر انڈین حکومت نے خالصتان کیلئے مسلح بغاوت کی قیادت کرنے کا الزام لگایا تھا۔
بھنڈرانوالے اور ان کے حامیوں کو 1984ء میں اس وقت ہلاک کر دیا گیا تھا جب انڈین فوج نے سکھ مذہب کی مقدس ترین عبادت گاہ گولڈن ٹیمپل پر دھاوا بول دیا تھا۔