(رابیل اشرف ) پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج (ٹی بی) کا عالمی دن منایا جارہا ہے، جو ایک ’خاموش قاتل‘ بن کر ہزاروں جانیں لے رہا ہے۔
ٹی بی کو کوروناوائرس کے بعد دنیا کی دوسری سب سے مہلک متعدی بیماری سمجھا جاتا ہے، تاہم ٹی بی قابل علاج ہے۔
پاکستان میں ہر سال 6 لاکھ کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں سے کم از کم 27ہزار ملٹی ڈرگ ریزسٹنٹ اقسام کے بتائے جاتے ہیں جبکہ لگ بھگ 40ہزار مریض انفیکشن سے انتقال کرجاتے ہیں۔
دوسری جانب دنیا بھر میں اس بیماری سے تقریباً 15 لاکھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ان میں سے 2 تہائی اموات جن 8 ممالک میں ہوئی ہیں، ان میں سے زیادہ تر بھارت میں، اس کے بعد چین، انڈونیشیا، فلپائن، پاکستان، نائجیریا، بنگلہ دیش اور جنوبی افریقہ ہیں۔
مزید پڑھیں: جی ایچ کیو میں بیٹھنے کیلئے کرسیاں تک نہیں تھیں،مشاہد حسین سید نے حقائق سے پردہ اٹھادیا
1700 کی دہائی میں مریضوں کے پیلے رنگ کی وجہ سے ٹی بی کو "سفید طاعون" کہا جاتا تھا جبکہ 24 مارچ 1882 کو ڈاکٹر رابرٹ کوچ نے ٹی بی کا سبب بننے والے بیکٹیریا کو دریافت کیا تھا، تاہم ایک صدی بعد اسی دن ٹی بی کا عالمی دن منانے کا آغاز ہوا۔ ٹی بی کی پھیلنے کی وجہ مریض خود ہوتا ہے، جو نہ صرف خود اس سے متاثر ہوتا بلکہ دوسروں کو بھی کرتا ہے۔ یہ بیماری ٹیوبر کلوسس بیکٹیریا، مائیکوبیکٹیریم ٹیوبر کلوسس کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے اور مریض کھانستا ہے، تو ہوا کے ذریعے اس کے بلغم میں موجود ٹی بی کا بیکٹیریا دوسرے انسان تک منتقل ہوجاتی ہے۔
ٹی بی سے چھٹکارہ کیلئے لوگوں کو احتیاط کی ضرورت ہے۔ طبی ماہرین نے لوگوں کو علامات کی صورت میں فوری معائنہ اور علاج کا مشورہ دیا ہے ۔