(فرخ احمد)سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری نے پروگرام میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ رؤف حسن پر حملہ کی نوعیت ذرا مختلف ہے ، سیاستدانوں پر حملے ہوتے آئے ہیں لیکن خواجہ سراؤں کے حملہ آور ہونے کی وجہ سے اس کو زیادہ شہرت ملی ہے۔ ان کا کہناتھا کہ اس قسم کے حملے قابل مذمت ہیں۔
رانا ثنا اللہ کے بیان پر کہ پی ٹی آئی کی قیادت سے مذکرات کرنے چاہئیں سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ خان صاحب بات چیت ان سے نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ اُن سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔یعنی اسٹیبلشمنٹ سے۔
عمر ایوب کے بیان قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ریاست کا لبادہ نہیں اوڑھنا چاہیے،سینئر صحافی کا کہنا تھاعمر ایوب کو پتہ ہے نہیں کہ ریاست ہوتی کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمر ایوب کی تاریخ بھی درست کرنی ضروری ہے۔کیونکہ ان کا خیال ہے کہ بنگلہ دیش جو بنا تھا وہ یحییٰ خان کے فیصلے کی وجہ سے بنا تھا سلیم بخاری نے اس کو بہت بڑا جھوٹ قرار دیا، انہوں نے یاد کرایا جنرل ایوب خان نے اس وقت مارشل لاء لگا کر دو حصوں کو ان کے جمہوری حق سے محروم کر دیا تھا اور انہوں نے شیخ مجیب الرحمان کے خلاف اگر تلہ سازش کیس کا مقدمہ قائم کیا اور ان کو گرفتار کر کے جیل میں ڈالا، یحییٰ خان اس وقت کہاں تھے،مشرقی پاکستان کے عوام اور تاریخ دان بھی مانتے ہیں کہ بنگلہ دیش کی بنیاد اگر تلہ سازش کیس بنا تھا ۔سلیم بخاری نے سوال کیا وہ آپ کے دادا ہی تھے نہ جنہوں نے ایبڈو کے تحت تمام سیاستدانوں کی زبان بند کی تھی۔کس نے بی ڈی سسٹم ایجاد کر کے جمہوری سسٹم کی قبر کھودی تھی۔سینئر صحافی نے ان کے اس دعویٰ کو بھی مسترد کر دیا کہ ملک میں ایک شخص کی حکمرانی ہے جبکہ چاروں صوبوں میں الگ الگ پارٹیز کی حکومتیں قائم ہیں۔پی ٹی آئی کو پیپلز پارٹی نے اتحادی حکومت کی آفر نہیں کی تھی کیا لیکن پی ٹی آئی کے بانی تو کسی سے بات کرنے کو راضی نہیں ہیں وہ تو سب کو چور اور ڈاکو سمجھتے ہیں۔انہوں نے سوال کیا کہ عمر ایوب بتا سکتے ہیں کیا وہ خود چوری کے الزام میں جیل میں نہیں ہیں۔پی ٹی آئی کے وہ لوگ جو پریس کانفرنس کر کے چلے گئے تھے وہ اب واپس آنا چاہتے ہیں وہ خود آنا چاہتے ہیں یا پارٹی کو بھی ان کی اشد ضرورت ہے اور وہ چاہتی ہے کہ وہ واپس آجائیں۔
عدالتی رپورٹنگ پر پیمرا کی پابندی کے حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے سلیم بخاری نے یکسر مسترد کر دیا۔انہوں نے کہا کہ جب کیسزعدالتوں کی زینت بنتے ہیں اور عدالتیں ایسے فیصلے کریں گی جن پر سوالات اٹھیں تو ایسے عدلیہ کے فیصلے میڈیا پر ڈسکس ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا حکومت نیشنل میڈیا کو تو روک سکتی ہے، لیکن سوشل میڈیا پر کیسے روک پائیں گے۔ کیا پھر ایسے فیصلوں پر جو سوشل میڈیا حشر کرے گا وہ کیسے برداشت ہوگا۔اس قسم کے احکامات بالکل بھی مناسب نہیں ۔
آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بخاری صاحب کا کہنا تھا کہ ہمارے حکمران جو آئی ایم ایف کے آگے لیٹے جا رہے ہیں یہ سب ہماری اکانومی کا بیڑا غرق ہو رہا ہے،یہ کوئی اچھی صورتحال نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کا تو مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ کس طرح وہ اپنے شکنجے میں جکڑیں۔آئی ایم ایف کا وفد بجلی گیس ٹیرف میں اضافے پٹرولیم پر 18 فیصد جی ایس ٹی لگانے جیسی تجاویز دیکر واپس روانہ ہو گیا۔کیا سوچا ہے کہ جب ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو اس کا عام آدمی کی ذندگی پر کیا اثر پڑے گا۔
نان فائلرز کی موبائل فون سمز بند کرنے کا فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوے معروف تجزیہ کار کا کہنا تھا یہ کوئی حل نہیں ہے۔ اس سے نان فائلرز کوئی اور چور راستہ نکال لیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں لو گ بڑی خوشی سے ٹیکس دیتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے بدلے میں عوام کو ریلیف ملتا ہےاور وہ اچھی زندگی گزارتے ہیں۔ لیکن یہاں تو حکمرانوں کے اللے تللے ہی ختم نہیں ہو رہے، اور عوام کو ایک رتی کا ریلیف بھی نہیں ملتا ٹیکس دینے کے بعد تو پھر تاثر بن گیا ہے کہ ٹیکس کیوں دیا جائے، جب عوام دیکھتے ہیں حکمرانوں کی گاڑیوں کا جلوس جا رہا ہے جن میں پٹرول کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی مرمت کے اخراجات بھی عوام کے ٹیکس میں سے جاتے ہیں تو پھروہ مایوس ہو جاتے ہیں۔وہ رویہ جو ٹیکس دینے کا بنتا ہے وہ بنتا ہی نہیں ہے۔