آئی ایم ایف کے مطالبات،قومی معیشت،عام انسانوں کی زندگیوں پر کیا اثرات پڑیں گے؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز)آئی ایم ایف وفد پاکستان میں نئے پروگرام سے متعلق مزاکرات ختم کرچکا،ایک طرف آئی ایم ایف ملک میں سرمایہ کاری اور ایکسٹرنل فائناسنگ کی یقین دہانی مانگ رہا ہے تو دوسری جانب ملک میں سرمایہ کاری سے متعلق سامنے آمنے والے اعدادو شمار انتہائی پریشان کن ہیں ۔ وزیراعظم شہباز شریف ایران سے واپسی پر متحدہ عرب امارات پہنچ چکے ہیں جہاں سے خبر یہ ہے کہ ابوظہبی نے دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا یقین دلادیا ہے اور اگلے ماہ سات جون کو شہباز شریف صاحب چائنہ کا دورہ کریں گے یقین دہانیاں اور تالیاں تو سعودی عرب کی جانب سے بھی تھیں مگر سوال یہ ہے کہ اب تک کتنی سرمایہ کاری ملک میں آسکی نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ اعداد و شمار کے مطابق ختم ہونے والے مالی سال کے دوران ملک میں سرمایہ کاری جی ڈی پی کے 13.1 فیصد رہی ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سفک اکیلے کچھ نہیں کرسکتی، جب تک ملک کے تمام معاشی فنڈامینٹلز درست نہیں ہوتے اور سیاسی استحکام حاصل نہیں کیا جاتا، تب تک سرمایہ کاری کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کیے جاسکیں گے، سرکاری اعداد و شمار میں پر کیپیٹا انکم 1674 ڈالر فی شخص ظاہر کی گئی ہے۔
پروگرام ’10 تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ سرمایہ کاری اور بچت کا تناسب بھی مطلوبہ اہداف سے کم رہا، جس نے بیرونی شعبے کے بحران کو جنم دیا ہے، سرمایہ کاری کا ہدف 15.1 فیصد مقرر کیا گیا تھا لیکن یہ 13.1 فیصد رہی جو کہ 50 سال کی کم ترین سطح ہے، آخری بار 1973-74 میں سرمایہ کاری کی شرح 13.2 فیصد دیکھی گئی تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جاری مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف نے پاکستان سے سرمایہ کاری اہداف کے متعلق بھی سوال کیا ہے، ٹیکس پالیسیوں میں مسلسل تبدیلیوں اور مینوفیکچرنگ سیکٹر کے ساتھ تعصبانہ رویے نے مینوفیکچرنگ کے شعبے میں سرمایہ کاری کو کم کر دیا ہے، ملکی پیداوار کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، سرمایہ کاری میں کمی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اس نے اپنے وسائل سے انفراسٹرکچر اور سوشل اسٹرکچر میں اصلاحات کرنے کی حکومت کی صلاحیتوں کو بھی کم کر دیا ہے، اس طرح حکومت کا قرضوں پر انحصار مزید بڑھے گا۔مزید جانئے اس ویڈیو میں