آخر کار وزیراعظم شہباز شریف کے آئینی اختیار کا یہ بڑا فیصلہ سامنے آ گیا کہ پاک فوج کے نئے سربراہ جنرل سید عاصم منیر ہوں گے، جن کی وجہ شہرت نہ صرف ان کا بہترین پیشہ وارانہ کیریئر ہے، بلکہ ان کی مضبوط قوت فیصلہ اور فوج کے نظم و ضبط کو مقدم رکھنے کی سوچ بھی زبان زد عام ہے۔
اسی طرح چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے لیے پاک فوج کے مایہ ناز افسر لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا کا انتخاب کیا گیا ہے۔
انتہائی حد تک زیر بحث رہنے، قیاس آرائیوں، افواہوں،پراپیگنڈے کے ماحول میں یہ مراحل طے ہوئے، جس سے جڑے خدشات و پریشانی پوری قوم کو لاحق ہو چکی تھی۔
لیکن یہ بہترین اور پرسکون منطقی انجام ایسے ہی نہیں سامنے آیا۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی گذشتہ چند روز کی وزیراعظم ہاؤس میں مسلسل مصروفیات کو مدنظر رکھیں تو یہ سمجھنا مشکل نہیں، اہم ترین تعیناتیوں کو آئینی و قانونی طریقہ کار کے مطابق smoothly یقینی بنانے، سینیارٹی کی بہترین روایت قائم کرنے کا سہرا لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کے سر جاتا ہے۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے پراسس میں کوئی کمی نہ رہ جائے، یہ ذمہ داری سپائے ماسٹر کو یقینا جنرل باجوہ اور پوری فوجی قیادت کی جانب سے سونپی گئی ہو گی، جو انہوں نے بطریق احسن پوری کی۔
آئی ایس پی آر نے بھی لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کی قیادت میں اس سارے حساس و مشکل ترین فیز میں بہترین احتیاط کا مظاہرہ کیا، باوجود ہماری تمام کوشش ہمیں قیاس آرائیوں کا کوئی موقع نہیں دیا۔ نہ کسی کے فیورٹ ہونے کا اشارہ ملا، نہ حکومتی و اپوزیشن اکابرین کی جانب سے جنم دیے گئے تنازعات میں پارٹی بنے۔ صرف پراسس کی حقیقت کی حد تک آف دی ریکارڈ بتایا گیا کہ جو چل رہا وہ درست نہیں۔ پھر جی ایچ کیو سے چھ نام بجھوانے کا بھی باقاعدہ اعلان کر دیا گیا تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔
یہ سب مراحل تو طے ہوئے۔ اب بہترین موقع صدر عارف علوی، عمران خان اور حکومت وقت کے سیاسی مخالفین کے پاس ہے کہ مزید رکاوٹ سے گریز کرتے ہوئے یہاں سے آگے نکلیں۔ اس معاملے کو اب مزید اپنی سیاست میں شامل نہ کریں۔ اور سب اپنی اپنی غلطیوں، کمیوں، خامیوں، کوتاہیوں کا برملا اعتراف کرتے ہوئے جنرل باجوہ کے یوم دفاع و شہداء تقریب سے خطاب کی روشنی میں آپس میں مل بیٹھ کر تنازعات کا حل نکالنے کی سعی کریں۔۔
پاکستان زندہ باد