ہماری تاریخ مغالطوں سے بھری پڑی ہے, زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے تصوراتی دنیا میں رہنا باشعور اقوام کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ سچ صرف اتنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دو الگ الگ ممالک ہیں ,مذہب اور ثقافت سمیت بہت سی قدریں مشترک ہونے کے باوجود دونوں کی اپنی شناخت ہے۔ ساری گڑ بڑ اس وقت ہوتی ہے جب سرحدوں کے تقدس کو پامال کر کے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سٹریٹیجک ڈیپتھ (تذویراتی گہرائی) بہت احمقانہ سوچ ثابت ہوئی۔ وقت نے ثابت کیا کہ کسی دوسری سرزمین کو اپنے لیے دفاعی مورچہ سمجھ لینا گہرائی نہیں بلکہ کھائی ثابت ہوتا ہے۔
ان دنوں پاک افغان تعلقات سخت تناؤ کا شکار ہیں۔ دونوں حکومتوں کے بڑے بڑے زعما ایک دوسرے کے خلاف بیانات داغ رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہو گا کہ حالیہ کشیدگی کی بنیاد کیا ہے۔ یقینا یہ پی ٹی آئی دور میں ملک سے فرار ہو کر افغانستان جانے والے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو واپس لانے اور جیلوں میں بند خطرناک ارکان کو رہا کر کے شہری معاشرے کا حصہ بنانے کے سوچے سمجھے منصوبے پر عمل درآمد اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات کے باعث پیدا ہوئی۔ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں تیزی آ گئی۔ خونریزی اور تباہی کے واقعات میں پھر سے اضافہ ہو گیا۔
ظاہر ہے یہ صورتحال کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اعتراف کیا ہے کہ دو سال قبل کابل میں ہونے والے مذاکرات ڈھونگ تھے۔ یاد رہے کہ کابل فتح ہونے کے فوری بعد اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے کابل کا مشہور زمانہ دورہ کیا تھا اور اس امر کا خصوصی اہتمام کیا تھا کہ ہوٹل میں ان کی چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑے تصویر اور ڈائیلاگ ”پریشان نہ ہوں، سب ٹھیک ہو جائے گا“ والے ڈائیلاگ اچھی طرح سے پھیل جائیں۔ اس دورے سے حاصل تو کچھ نہ ہو سکا البتہ عالمی اور علاقائی سطح پر مفروضوں اور افواہوں کا ایک نا مناسب سلسلہ چل پڑا۔ اس وقت یہی اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ طالبان حکومت نے زیادہ گرمجوشی کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ کسی حد تک ناپسندیدگی ظاہر کی کہ کسی کو یہ موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ طالبان کی جنگی فتح کو اپنی امیج بلڈنگ کے لیے استعمال کرے۔
افغانستان کا پیغام اس وقت بھی یہی تھا کہ پاکستانی حکومت ٹی ٹی پی سے معاملات خود طے کرے۔ آفاقی اصول ہے کہ مذاکرات وہاں ہوتے ہیں جہاں فریقین مل بیٹھ کر کوئی حل نکالنے کے خواہاں ہوں۔ جب کوئی گروہ بندوق اٹھا کر اپنی بات منوانے پر تل جائے تو پھر مہذب ترین ممالک میں بھی بے رحمانہ آپریشن کر کے قلع قمع کیا جاتا ہے۔ پاکستان کو آج بالکل یہی صورتحال درپیش ہے۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کو افغان سرزمین سے نہ صرف محفوظ ٹھکانوں کی فراہمی جاری ہے بلکہ جدید امریکی اسلحہ بھی مل رہا ہے۔ پاکستان میں دہائیوں سے غیر قانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کے انخلا سے دونوں ممالک کے درمیان جاری کھچاؤ اور بڑھ گیا ہے۔ بنیادی بات یہی ہے کہ جلد یا بدیر دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی سرحدی سالمیت کا احترام اور ایک دوسرے کے معاملات میں عدم مداخلت کے لازمی اصولوں پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔ تبھی کوئی ٹھوس اور پائیدار نتیجہ نکل سکتا ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں بھی ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کابل میں حکومت روس نواز ہو یا امریکہ نواز یا پھر طالبان آ جائیں، پاکستان سے مخاصمت کے جذبات کم نہیں ہوتے۔ آخر افغانوں میں یہ تاثر کیوں راسخ ہو چکا ہے کہ ان کے تمام مصائب کا ذمہ دار پاکستان ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور والا افغان جہاد ہو یا نائن الیون کے بعد کی طویل جنگ پاکستان اور اس کے شہری بھی ہولناک صورتحال سے دوچار ہوئے۔ یہ الگ بات ہے کہ ”مستقل حکمرانوں“ نے اس دوران کئی طریقوں سے بھرپور فائدے اٹھائے۔ افغانستان سے روس کے بعد امریکہ بھی زخم چاٹتا ہوا جا چکا۔ خطے میں اگلا دور معاشی سرگرمیوں کا ہے جس کی قیادت چین کرے گا۔ اسی لیے چین کی بھرپور کوشش ہے کہ پاک افغان کشیدگی میں کمی لائی جائے۔ یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ افغانستان پر طالبان حکومت کا دور کم دورانیے کا نہیں ہو گا۔ اب تو کوئی شمالی اتحاد بھی نہیں جو چیلنج کرنے کیلئے موجود ہو۔ چین اور ایران طالبان حکومت سے تجارت کر رہے ہیں۔ روس اور وسط ایشیائی ریاستیں بھی طالبان حکومت کے ساتھ مشترکہ منصوبے بنانے میں کوئی ہرج نہیں سمجھتیں۔
بھارت نے تو پہلے ہی سے کئی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ امریکہ کو کئی چیزوں پر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اب وہ براہ راست مداخلت کی پوزیشن میں ہے نہ ہی اسے اسکی ضرورت ہے۔ عرض کرنے کا مقصد اتنا ہے کہ اب ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے، تبدیل ہوتی ہوئی عالمی و علاقائی سیاست کو مد نظر رکھ کر ہی کرنا ہے۔ تیز و تند بیانات اور دہشت گردوں کے ”گرم تعاقب“ کے دعوے اپنی جگہ لیکن یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ مسلح تصادم حالات میں بہتری لانے کے بجائے مزید خرابیوں کا سبب بنے گا۔ اس تمام صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کہ آج بڑی سیاسی جماعتیں خاموش ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کی ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں۔ ایسے میں جے یو آئی ف ہی ایک ایسی پارٹی ہے جو کھل کر کہہ رہی ہے کہ پاک افغان تعلقات بگاڑنے سے بہتری نہیں آ سکتی۔ حکومت پاکستان کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے کسی حل کی جانب بڑھنا ہو گا۔ اگر دیکھا جائے تو یہی رائے سب سے بہتر ہے۔
جو کچھ ماضی میں ہو چکا اسے ایک طرف رکھ کر اس بات پر یقین کرنا ہو گا کہ افغانستان ہمارا پانچواں صوبہ ہے نہ کبھی بن سکتا ہے۔ افغان طالبان کو بھی اس اٹل سچائی کی جانب آنا ہو گا کہ پاکستان ان کا پڑوسی ملک ہے۔ برادرانہ تعلقات کے لیے ایک دوسرے کی سرحدی سالمیت اور قوانین کا احترام کرنا ہو گا۔ جس طرح کسی بھی دوسرے ملک جانے، کاروبار، ملازمت یا رہائش اختیار کرنے کے لیے سفری دستاویزات لازمی ہوتی ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بھی ہے۔ دونوں ممالک کے شہری انہی قانونی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے لاکھ بار آئیں جائیں کوئی خرابی پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تعلقات بہتر بنانے میں دونوں ممالک کا فائدہ ہے لیکن یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی ہے اس سلسلے میں زیادہ ذمہ داری افغان طالبان پر ہی عائد ہوتی ہے۔
یہ بھی غنیمت ہے کہ اس وقت پاکستان میں ایسی شخصیات موجود ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان ہموار تعلقات کی بنیادیں قائم کرنے کے لیے موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہی آوازوں کا سنا جانا چاہیے ورنہ پاکستان کے دشمن تو یہی چاہیں گے کہ ہم افغان طالبان کے ساتھ مسلح تصادم میں الجھ جائیں ,اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ موجودہ مخاصمت کو مذاکرات کے میز پر ختم کرنا ممکن نہیں تو یہ نکتہ ہر صورت مد نظر رکھا جانا چاہیے کہ بار بار وار کرنے والی بین الاقوامی لابیاں پاکستان کو گھیر کر کسی بڑے جال میں پھنسانے کی سازش تو نہیں کر رہیں۔ جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو۔
نوٹ:(یہ تحریر رائٹر کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر )