(24نیوز)معروف پروڈیوسر‘ڈائریکٹر،مصنف اور اداکار رؤف خالدکومداحوں سے بچھڑے13برس بیت گئے،اپنی منفرد شخصیت اوراعلیٰ صلاحیتوں کی بدولت انہوں نے بہت کم عرصے میں ہی بے پناہ شہرت پائی،تحریک آزادی کشمیر کے پس منظرمیں ان کی مقبول ترین ڈرامہ سیریل ”انگار وادی“ آج بھی شائقین کی یادوں میں تازہ ہے۔
19دسمبر1957ءکومردان میں پیداہونےوالے رﺅف خالد کاپورا نام عبدالرﺅف خالد تھا، فنی کیریئرکاآغاز بطوررائٹراور ڈائریکٹر1989ءمیں منشیات کے موضوع پربننے والی ڈرامہ سیریل”مدار“ سے کیاجس کے بعد1991ءمیں 52 اقساط پرمشتمل ڈرامہ ”گیسٹ ہاﺅس“ کیا،کشمیر کے موضوع پرڈرامہ سیریل”انگار وادی“ اور”لاگ “ان کی شہرت کاباعث بنے جس کے وہ ڈائریکٹر ‘پروڈیوسر اوررائٹرتھے اس کے علاوہ بطور اداکار بھی ان میں کام کیاتھا،اس سے کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کوبین الاقوامی سطح پر تقویت ملی اورقابض بھارتی فوج کا گھناﺅنا چہرہ بے نقاب ہوا،نیئر اعجاز اور خواجہ سلیم کو بھی ان ڈراموں سے بہت زیادہ شہرت ملی تھی۔
ٹی وی کے علاوہ بطور رائٹر ‘ ڈائریکٹراور پروڈیوسر 2003ءمیں جدوجہد آزادی پر فلم ”لاج“ بھی بنائی لیکن وہ کامیابی حاصل نہ کرسکی، 2008ءمیں طویل عرصہ کے بعد اپنی تیسری میگا ڈرامہ سیریل ”مشال“ بنائی،وہ ہالی وُڈ اسٹار جولیا رابرٹس کے ساتھ بھی ایک فلم بنانا چاہتے تھے جس کے لیے اسے پاکستان آنے کی دعوت بھی دی لیکن اپنی مصروفیات کے باعث جولیارابرٹس نے انکار کردیا تھا۔
رﺅف خالد سابق بیوروکریٹ بھی تھے،لوک ورثہ میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف کلچر کے بانی ہونے کے ساتھ چانسلر کی حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دیتے رہے،مصوری سے بھی انہیں بے حد لگاﺅ تھا،فائن آرٹ گیلری نیویارک اور اوماما آرٹ گیلری میں ان کی پینٹنگز کی نمائش منعقد ہوئیں۔
وہ چوتھی میگا ڈرامہ سیریل پربھی کام کر رہے تھے جس کا صرف پوسٹ پروڈکشن اور نام فائنل ہونا باقی رہ گیا تھالیکن زندگی نے وفانہ کی،وہ 24نومبر2011ءکوصرف53سال کی عمرمیں ایک ٹریفک حادثے میں زندگی کی بازی ہارگئے تھے،انہیں فنی خدمات کے اعتراف میں پرائیڈ آف پرفارمنس کے علاوہ دی کشمیر میڈل سے بھی نوازاجاچکاہے۔