چین سی پیک سے پیچھے نہیں ہٹے گا

اسلم اعوان

Nov 24, 2024 | 13:18:PM

پاکستان اور چین نے گزشتہ بدھ کے روز انسداد دہشت گردی کی جن مشترکہ مشقوں کا آغاز کیا اُن کا مقصد فوجیوں کی پیشہ ورانہ مہارتوں کو نکھارنے کے علاوہ دونوں ممالک کے مابین ملٹری ٹو ملٹری تعلقات کو تقویت پہنچانا ہے ۔ پہلے بھی دونوں ریاستیں دفاعی پیداوار، ٹیکنالوجی اور تربیت میں دیرینہ تعاون کا ریکارڈ رکھتی ہیں، چین پاکستان کو لڑاکا طیارے اور آبدوزوں سمیت جدید ہتھیار فراہم کرنے والا بڑا دفاعی سپلائر ہے،تاہم جاری مشقیں کراچی اور جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں علیحدگی پسند عناصر کی طرف سے پاکستان میں موجود چینی شہریوں پر حملوں میں اضافے کے تناظر میں وقوع پذیر ہو رہی ہے گویا دونوں ممالک کی مشترکہ فوجی مشقیں، انسداد دہشت گردی کی مساعی کو مربوط بنا کر علاقائی سلامتی کو یقینی بنانے پہ مرکوز رہیں گی ۔ گزشتہ ماہ کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب خودکش دھماکے میں چینی انجینئرز کو نشانہ بنایا گیا، جس میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ اسی سال مارچ میں شمال مغربی علاقوں میں خودکش حملہ میں پانچ چینی انجینئرز اور ایک پاکستانی ڈرائیور اُس وقت مارے گئے جب وہ ملک کے سب سے بڑے ہائیڈرو پاور پراجیکٹ داسو ڈیم کی جانب جارہے تھے، اسلام آباد کا کہنا ہے کہ اِن دہشتگرد حملوں کا مقصد بیجنگ کے ساتھ اس کے تعلقات میں خلل ڈالنا اور پاکستان میں اربوں ڈالر کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے کو غیر مستحکم بنانا ہے ۔

سی پیک کی سرمایہ کاری اور چینی اہلکاروں کے تحفظ کے لیے، پاکستان نے 2016 میں 34ویں لائٹ انفنٹری ڈویڑن کے تحت 10,000 سے زائد جوانوں پہ مشتمل سیکیورٹی فورس قائم کی تھی،پھر 2020 میں 44ویں لائٹ انفنٹری ڈویڑن کو دوسری ٹاسک یونٹ کو بھی اس میں شامل کر دیا مگر اس سب کے باوجود سی پیک روٹ کے اطراف تشدد کے واقعات میں کمی نہیں آئی، اس لئے بیجنگ، اسلام آباد کی کوششوں کو ناکافی سمجھ کر اپنے شہریوں کی حفاظت کے لیے چینی سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی کی درخواست کر سکتا ہے ۔ سی پیک کے راستے میں ابھرنے والے سیکورٹی خطرات اور بلوچستان جیسے خطہ میں مرکز گریز نسلی تحریکوں کی مزاحمتی کاروائیوں کے  باوجود چین علاقائی عزائم کے ساتھ سی پیک منصوبہ کو ترجیح بنیادوں پر جاری رکھے ہوئے ہے ، جس سے یہی واضح ہوتا ہے کہ بیجنگ ابھرتی ہوئی عظیم طاقت کے طور پر اپنے تزویراتی علاقائی رابطوں کے مقاصد کے لیے پُرعزم ہے ۔ سی پیک جو 2015 میں شروع کیا گیا ، چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انشیی ٹیو کے تحت سب سے مہنگے مگر رابطے کے موثر اقدامات کی نمائندگی کرتا ہے، جس کی اصل تخمینہ لاگت 62 بلین ڈالر ہے ۔ یہ راہداری تقریباً 3,000 کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے، جو چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ سے شروع ہو کر بلوچستان کے بندرگاہی شہر گوادر میں بحیرہ عرب تک پہنچتی ہے ۔

ضرورپڑھیں:پی ٹی آئی احتجاج، 3 رکن قومی اسمبلی گرفتار

چین کے لیے یہ منصوبہ تزویراتی اہمیت بھی رکھتا ہے جس کا مقصد ”ملاکا مخمصے“کو کم کرنے کے علاوہ جغرافیائی سیاسی تناو کی صورت میں بحیرہ جنوبی چین کے ذریعے چین کی بحر ہند تک رسائی میں رکاوٹوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات سے بچنا شامل ہے یعنی یہ چین کو اقتصادی تعلقات کو تقویت دینے اور خلیج فارس کے خطے کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے کے لیے ایک اہم راستے کے طور پر کام کرے گا ۔ مزید برآں،بی آر آئی کے فلیگ شپ پروجیکٹ کے طور پر  سی پیک ، چین کے بین الاقوامی امیج کے لئے بھی سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جو عالمی انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے اس کی لگن کی عکاسی کرے گا ۔ بیجنگ نے سی پیک کو سٹریٹجک طور پر بڑے عالمی کھلاڑی کے طور پر چین کے ابھرنے کی علامت کے طور پر تیار کیا ، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران عالمگیریت کو آگے بڑھانے اور گلوبل ساوتھ کے ساتھ اس کی پائیدار اقتصادی ترقی کے اشتراک کو ظاہر کرتا ہے ۔ اسی طرح پاکستان بھی سی پیک کو اپنی قومی معیشت کو بحال کرنے کی صلاحیت کے ہمراہ تبدیلی کے محرک کے طور پر دیکھتا ہے، جو سرد جنگ اور مابعد کی دائمی جنگووں میں الجھنے کی وجہ سے بدترین مالیاتی عدم استحکام ،سیاسی انتشار اور سماجی زوال جیسے مسائل سے دوچار ہے ۔ چنانچہ میزبان ملک اس منصوبے کو قومی سلامتی کے تحفظ اور مجموعی تعمیرنو کا اہم جیوسٹریٹیجک اثاثہ بنانا چاہتا ہے ۔ بین الاقوامی سطح کے وسیع افق پر سی پیک امریکہ کے مقابل چین کی سٹریٹجک پوزیشن کو استوار کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا ۔ واشنگٹن کے حامی اتحادیوں کے گھیراوسے بچنے کے لیے بیجنگ کی حکمت عملی میں رابطے کے منصوبے تیزی سے مرکزی حیثیت حاصل کرتے جا رہے ہیں ۔ رابطے کے یہ منصوبے نہ صرف اہم بنیادی ڈھانچہ اور تجارتی راستوں کو استوارکرتے ہیں بلکہ منسلک ممالک کا بیجنگ پر اقتصادی انحصار بھی بڑھاتے ہیں اور یہی اقتصادی عوامل چین کو اہم علاقائی اداکاروں کے طور پر سٹریٹجک اثر و رسوخ بڑھانے کی سیڑھی فراہم کرتے ہیں ، جس کی بدولت چین کی امریکہ کے عالمی کردار کا متبادل بننے کی صلاحیت بتدریج بڑھتی جا رہی ہے ۔ جسمانی اور مالی دونوں طرح کے تعلقات کو فروغ دے کر ، چین ، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے اس پر قابو پانے یا گھیراو کرنے کی کوششیں بیکار بنا رہا ہے ، یعنی چین اور امریکہ کے درمیان بی آر آئی کے ذریعے چینی سرمایہ کاری پر انحصار کرنے والی ریاستوں کا ایک بفر زون پیدا ہو چکا ہے ۔

 اسی سٹریٹیجک بفر زون میں شگاف ڈالنے کی خاطر مغربی طاقتوں نے 2018 سے پاکستان کے اندر سیکیورٹی چیلنجز ، مالیاتی بدنظمی اور سیاسی رکاوٹوں کے سلسلے ابھار کر سی پیک کے سامنے کئی رکاوٹیں کھڑی کیں ۔ جیسے بلوچستان میں بڑھتے ہوئے نسلی تضادات جو کہ قدرتی وسائل کے مبینہ استحصال پر مقامی شکایات کے سیاسی بیانیہ کے طور پر ابھارے گئے جیسا کہ ریکوڈک سونے کی کانوں اور چین کی زیر قیادت منصوبوں سے متعلق ماحولیاتی انحطاط جیسے معاملات کے علاوہ بلوچستان لبریشن آرمی ، داعش خراسان ، ٹی ٹی پی اور تحریک جہاد پاکستان جیسے عسکریت پسند گروپوں کی ریاست مخالف کاروائیوں سے آگے بڑھایا جا رہا ہے ، اسی جدلیات کے ذریعے امریکہ اپنی خارجہ پالیسی کو علاقائی رابطوں کے منصوبوں میں چین کے اثر و رسوخ سے نمٹنے کے لئے بروکار لانے میں سرگرداں ہے ۔ چنانچہ صدر ٹرمپ ،چین و پاکستان کے درمیان ابھرتی ہوئی حرکیات کو مدنظر رکھتے ہوئے،سی پیک سے متعلق تمام پیش رفتوں پر گہری نظر رکھنے کی خاطر داخلی سیاسی تضادات اور اقتصادی مشکلات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتے ہیں ، جیسے اضافی بیل آوٹ پروگراموں کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات کی روشنی میں ملک کے بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں نے سی پیک منصوبہ کو متزلزل کرنے کے والے عوامل کی رفتار بڑھا دی ۔ مزید برآں ، بیوروکریسی کی نااہلی اور علاقائی دشمنیوں نے اندرونی سیاسی کشمکش کو مہمیز دیکر شورش زدہ بلوچستان کی سماجی و اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں ، جس سے صورتحال میں پیچیدگی کی کئی اور پرتیں شامل ہو گئیں چونکہ سی پیک کی کثیر جہتی نوعیت اور ممکنہ رفتار امریکی خارجہ پالیسی کے لیے اہم مضمرات رکھتی ہے۔ جیسا کہ چین اس منصوبے کے ذریعے پاکستان کے ساتھ اپنے اقتصادی اور سیکیورٹی تعلقات کو گہرا کرتا ہے، وہ ایک ایسے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا ہے جہاں علاقائی استحکام ، انسداد دہشت گردی کی کوششوں اور سمندری راستوں کی سلامتی جیسے امور پہ امریکی اجارہ داری کو چیلنج ملتا ہے ۔ اگر چین نے جنوبی ایشیا میں اقتصادی اور سٹریٹیجک غلبہ حاصل کر لیا تو وہ امریکی اتحاد کو کمزور کرنے کے ذریعے عالمی تجارتی راہداریوں میں واشنگٹن کے اثر و رسوخ کو محدود کرکے ممکنہ طور پر طاقت کے توازن کو مشرق کے حق میں تبدیل کر سکتا ہے۔

اسی خطرے کے پیش نظر صدر ٹرمپ کا ردعمل ، شراکت داری برائے عالمی انفراسٹرکچر اینڈ انویسٹمنٹ کے فریم ورک کے اندر متبادل رابطوں کے منصوبہ بندی ، سی پیک کی پیشرفت کی کڑی نگرانی اور بلوچستان میں سماجی و اقتصادی اور انسانی حقوق جیسے مسائل کو ایکسپلائیٹ کرنے میں ڈھل سکتا ہے ۔ بنیادی طور پر عالمی طاقتیں ، بی ایل اے ، ٹی ٹی پی ، ٹی جے پی اور داعش خراسان سے منسوب تشدد کے واقعات کے ذریعے بلوچستان میں چین مخالف جذبات کی آبیاری کر رہی ہیں ، جس کے جواب میں بیجنگ نے پاکستان سے ملٹری ٹو ملٹری تعلقات بڑھانے کے علاوہ افغان طالبان کو انگیج کرکے افغانستان کو ایک نارمل مملکت کے طور پہ کھڑا کرنے کا منصوبہ بنا لیا ، ایسے اقدامات کے پیچھے اہم محرک یہ ہے کہ افغان طالبان،جو بنیادی طور پر افغانستان پر توجہ مرکوز کرتے ہیں لیکن وہ تاریخی طور پر ٹی ٹی پی اور ٹی جے پی جیسے جن عسکریت پسند گروپوں کے ساتھ منسلک رہے ، وہ الگ الگ کام کرنے کے باوجود چند نظریاتی مشترکات کے اسیر ہونے کے باعث کبھی کبھار سرگرمیوں میں باہم تعاون بھی کرلیتے ہیں ۔ کابل کے ساتھ بیجنگ کی بڑھتی ہوئی مصروفیت کے پیچھے ایک اور وجہ اس خطہ کی تعمیرنو کا بنیادی ایشو ہے جسے امریکہ نے دو دہائیوں تک پامال کرنے کے بعد بے یار مددگار چھوڑ دیا ، چین افغانستان میں آبی وسائل کی تخلیق کے علاوہ انفراسٹریکچر کی تعمیر میں سرمایہ کاری کرکے وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرقی یوروپ تک رسائی پانے کی کوشش بھی کرے گا ۔ اس لئے عالمی طاقتیں سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبہ کے خلاف بلوچستان میں نسلی بلوچوں میں اہم سماجی و اقتصادی خدشات اور استحصال کے جذبات کاشت کرکے انتشار برپا کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔

نوٹ :بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں