سپریم کورٹ کا سرپرائز،عمران خان کو ریلیف ،ن لیگ کو بڑا دھچکا،کیا ڈبل گیم چل گئی؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
سپریم کورٹ سے سانحہ نو مئی کے حوالے سے اب تک کا سب سے بڑا فیصلہ سامنے آیا ہے ، سپریم کورٹ نے 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں میں ملوث ہونے پر گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے1/4 سے کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل عام عدالتوں میں ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے ملٹری ایکٹ کے سیکشن 2 (1) (ڈی) کی دونوں ذیلی شقیں کو آئین کے برخلاف قرار دیا، اس کے علاوہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 59 (4) کو بھی غیر آئینی قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ ملزمان کے جرم کی نوعیت کے اعتبار سے مقدمات فوجداری عدالتوں میں چلائے جائیں۔پروگرام’10تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ اس فیصلے سے جسٹس یحیٰ آفریدی نے اختلاف کیا ہے۔کیس کی سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل نے عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے آئینی ترمیم کرنے اور نہ کرنے کے حوالے سے بات کروں گا، میں اس نکتے پر بھی بات کروں گا کہ موجودہ کیس میں آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کریمنل کورٹس کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے، اب ملٹری کورٹس میں ٹرائل کا باقاعدہ آغاز ہو چکا ہے، فوجی عدالتوں کے فیصلے میں وجوہات بھی لکھی جائیں گی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں گزشتہ سماعت کا خلاصہ دوں گا، میں بتاؤں گا کہ موجودہ ٹرائل کے لیے کیوں آئینی ترمیم ضروری نہیں تھی، میں آرٹیکل 175 پر بھی بات کروں گا، لیاقت حسین کیس کا پیرا گراف بھی پڑھوں گا، 21 ویں آئینی ترمیم کے فیصلے کی روشنی میں بھی دلائل دوں گا، ممنوعہ علاقوں اور عمارات پر حملہ بھی ملٹری عدالتوں میں جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں فوجداری مقدمہ کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے، 9 مئی کے ملزمان کا ٹرائل فوجداری عدالت کی طرز پر ہوگا، فیصلے میں وجوہات دی جائیں گی شہادتیں ریکارڈ ہوں گی، آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت شفاف ٹرائل کے تمام تقاضے پورے ہوں گے، ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیلیں بھی کی جا سکیں گی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ ماضی کی فوجی عدالتوں میں جن کا ٹرائل ہوا وہ کون تھے؟ کیا 2015 کے ملزمان عام شہری تھے، غیر ملکی یا دہشت گرد؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ملزمان میں ملکی و غیر ملکی دونوں ہی شامل تھے، سال 2015 میں جن کا ٹرائل ہوا ان میں دہشت گردوں کے سہولت کار بھی شامل تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ دہشت گردوں کا ٹرائل کرنے کے لیے آئینی ترمیم ضروری تھی عام شہریوں کے لیے نہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مسلح افواج سے ملزمان کا براہ راست تعلق ہو تو کسی ترمیم کی ضرورت نہیں، ملزمان کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 2 (1) (ڈی) کے تحت ٹرائل کیا جائے گا، جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ اپنے دلائل کو آئین کے آرٹیکل 8 (3) سے کیسے جوڑیں گے؟ آئین کے مطابق تو قانون میں مسلح افواج سے تعلق ضروری ہے، آپ کی تشریح کو مان لیا تو آپ ہر ایک کو اس میں لے آئیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کہا کہ قانون واضح ہے پھر ملزمان کا تعلق کیسے جوڑیں گے؟ آئین بنیادی حقوق کو تحفظ دیتا ہے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے سوال کیا کہ عدالت اور کورٹ مارشل میں کیا فرق ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ کورٹ مارشل آرمی ایکٹ کے تحت قائم فوجی عدالت ہے، کورٹ مارشل آرٹیکل175 کے تحت نہیں لیکن ہائی کورٹ کے ماتحت ہے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فیئر ٹرائل کا کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم میں قانونی عمل کا تحفظ کیا گیا تھا، آرمی ایکٹ کا اطلاق اسی صورت ہوتا ہے جب جرم فوج سے متعلقہ ہو عدالت نے فوج کی تحویل میں موجود ملزمان کی درخواستیں واپس کردیں، جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ فوجی تحویل میں افراد کی درخواستوں کے ساتھ بیان حلفی نہیں ہیں۔ فوجی تحویل میں 9 ملزمان کی درخواستیں واپس لے لی گئیں۔جس کےبعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کیا اور تین بجے کے بعد مختصر فیصلہ سنایا۔ملٹری کورٹ کیس میں سویلین کے مقدمات انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کر دیے ہیں ۔یہ ایک طرح سے پی ٹی آئی کےلیے بہت بڑا ریلیف ہے ۔یہ تقریبا ویسا ہی ریلیف جیسا شیخ رشید 40 دن کا چلا کاٹنے کے بعد سانھہ نو مئی میں ملوث ملزمان کو دلوانا چاہتے تھے۔شیخ رشید نے انٹرویو اور بعد میں ایک ٹویٹ کے ذریعے سے بتایا تھا کہ "اب میری زندگی کا مشن ان تمام لوگوں کو جو روپوش ہیں یا جن سے 9 مئی کی غلطی ہوئی یا بے گناہ جیلوں میں ہیں انکو عام معافی دلانا ہے۔"