پاکستان کرکٹ کی تاریخ پر کیا کہنے، بہت تلخ و ترش ہے جس میں بد سے بدترین دن دیکھنا پڑے لیکن افسوس! سب دیکھ کے چل دیے، صرف ورلڈ کپ قومی ٹیم کو تیسری اپ سیٹ شکست ہوگئی ہے، اس پر سب کا دکھی اور غمگین ہونا فطری عمل ہے لیکن اس سے بھی کڑوا سچ یہ ہے کہ آج تک ہم نے ماضی سے کبھی کچھ نہیں سیکھا۔
اب افغانستان سے آٹھ وکٹ کی شکست پر ہر ایک شکستہ دل ہے کیونکہ ٹھاٹھ باٹھ اور انہی کرکٹ کے نومولود کو سکھانے کے سب آرٹ چارٹ بھی ختم۔ افغانستان سے ہار، پاکستان کرکٹ کا ایک اور سیاہ دن۔ اسے وقت کا آئینہ دکھانا کہا جائے یا پھر تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والوں کا حال؟ قومی ٹیم نے افغانستان سے ایسی شرمناک شکست کھائی کہ گرین شرٹس کو گویا داغدار کردیا، پوری قوم اس غم میں ڈوبی ہوئی ہے لیکن ماضی کے وہ اسٹار کرکٹر جو خود ایسی اَپ سیٹ شکست سے دوچار ہوچکے ہیں۔
آج مختلف چینلز پر بیٹھ کر کھلاڑیوں کا آپریشن کلین سویپ کررہے ہیں، سوال صرف معصومانہ سا کہ آخر کس منہ سے، کیا ہم نے بحثیت کرکٹنگ نیشن ان بدترین ناکامیوں سے کچھ سیکھا جو 1999ء اور پھر 2007ء کے ورلڈ کپ میں ہوئیں، کسی نے ماضی کی ہار سے 23 اکتوبر کی شکست کا موازنہ کیا۔ کوئی مماثلت پیدا کی، کچھ مثبت اخذ کیا؟
بغیر مزید تمہید باندھے افغانستان سے پہلے آئرلینڈ اور بنگلادیش سے ہونے والی ورلڈ کپ اپ سیٹ شکستوں کا پہلے جائزہ لیں پھر آپ اپنی رائے قائم کریں پاکستان کرکٹ کے ساتھ سالہا سال سے کیا ہو کھلواڑ ہورہا ہے؟
ورلڈ کپ میں پاکستان کی اپ سیٹ شکست کوئی پہلی بار نہیں ہوئی، افغانستان سے پہلے بھی قومی شاہین، آئرلینڈ اور بنگلادیش جیسی بے بی ٹیموں سے ہار چکے ہیں، مار کھا چکے ہیں۔
آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ اَپ سیٹ شکستوں کی وجہ سے یادگار بننے لگا، بھارت میں جاری سپر میگا ایونٹ میں پاکستان کو ناتجربہ کار افغانستان سے آٹھ وکٹ کی ہار کی بدولت شرمسار ہونا پڑا۔ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ اپنی ہی سست بلے بازی، وکٹیں گنوانے اور بمشکل دو سو بیاسی تک پہنچنے کی وجہ سے غلط ثابت کردیا، پھر دنیا کے بہترین بولنگ کہے جانے والے شاہین آفریدی اور حارث رؤف نے ایسا مایوس کیا کہ جیت کی امیدیں میچ کے دوران ہی دم توڑنے لگی تھیں۔
ایسی حیران کن کارکردگی قومی ٹیم کی طرف سے کوئی پہلی بار سامنے نہیں آئی،2007ء کے ورلڈ کپ میں بھی ایسی ہی بری تاریخ رقم ہو چکی ہے۔ کیربیئنز کے اسٹارز سے بھری ٹیم پاکستان کو آئرلینڈ نے ہرا دیا۔
آئرش کپتان نے ٹاس جیت کر پاکستان کو بیٹنگ کی دعوت دی گویا اپنی بولنگ کے جال میں پھنسا لیا، کپتان انضمام الحق، لیجنڈری یونس خان، محمد یوسف، محمد حفیظ اور شعیب ملک سمیت بیٹنگ کے بڑے برج الٹ گئے تھے، پوری ٹیم 45.4 اوورز میں 132 رنز پر ڈھیر ہوگئی۔
اسی طرح 1999ء میں بنگلادیش نے پاکستان کو 62 رنز سے ہرا کر حیران کردیا، بیٹنگ کی ملنے والی دعوت بنگال ٹائیگرز نے خوب اڑائی، ماضی کے سپر اسٹار وسیم اکرم، شعیب اختر، وقار یونس، ثقلین مشتاق اور شاہد آفریدی کی خوب درگت بنائی، 224 رنز کا بنگلادیشی ہدف، پاکستان 44.3 اوورز میں 161 رنز پر ڈھیر، سعید انور9، شاہد آفریدی 2، اعجاز احمد صفر، انضمام الحق 7، سلیم ملک 5، اظہر محمود اور کپتان وسیم اکرم نے 29 ، 29 رنز بنائے، خالد محمود 4 وکٹوں سمیت آل راؤنڈ کارکردگی پر پلیئر آف دی میچ قرار پائے۔
یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن سے ہم نے من حیث القوم کبھی کچھ نہیں سیکھا، جس کو موقع ملا، اس نے اسے انجوائے کیا، کبھی پلیئر بن کر تو کہیں مبصر بن کر۔