جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کا مستقبل کیا؟سلیم بخاری کا تجزیہ

Oct 24, 2024 | 00:14:AM

(فرخ احمد)معروف صحافی اور سینئر تجزیہ کار سلیم بخاری نے جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس پاکستان مقرر پراپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کفر ٹوٹا خدا خدا کر کےنئے چیف جسٹس کے تقرر کے بعد جو جمہود کی کیفیت طاری تھی ۔ایک ہی طرح کی اعلیٰ عدلیہ کے اندر چیزیں ہو رہی تھیں اس کو تبدیل کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا ہے یعنی نئے چیف جسٹس کے تقرر کے ساتھ چیزوں کو درست سمت میں لے کر جانے کا موقع ملا ہے، کہ جو جیوڈیشل ایکٹوازم 2011 سے شروع ہوا تھا جو کہ چیف جسٹس افتخار چودھری سے ہوتا ہوا چیف جسٹس عمر عطا بندیال پر ختم ہوا، اب وہ جوڈیشل ایکٹوازم کا دور ختم ہوا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی 26 اکتوبر سے 3 سال کیلئے کی۔صدر نے جسٹس یحییٰ آفریدی سے 26 اکتوبر کو چیف جسٹس کے عہدے کا حلف لینے کی بھی منظوری دے دی۔گزشتہ روز 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تعیناتی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس پاکستان تعیناتی کی منظوری دی تھی جس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے صدر پاکستان کو جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس پاکستان تعینات کرنے کی سفارش بھیجی تھی۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو اس روایت کو ختم کر کے اپنا امیج بہتر کرنا ہوگا کہ کوئی کسی سیاسی پارٹی کا چیف جسٹس نہیں بلکہ ملک کا چیف جسٹس بنے اور فیصلے انصاف کے مطابق کریں۔جسٹس منصو ر علی شاہ اور جسٹس منیب اختر   ابھی تک مستعفی نہیں ہوئے ہیں ، اس لیے امید کی جاتی ہے کہ وہ عدلیہ کی بہتری  کی خاطر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ سسٹم کو اچھے طریقے سے چلانا چاہتے ہیں جو کہ ایک اچھی روایت ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ا گر دونوں ، جسٹس منصو ر علی شاہ اور جسٹس منیب اختر    پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کر لیتے ہیں تو ان کو کوئی بھی رول دیا جاسکتا ہے جیسا کہ جوڈیشل بینچ میں اہم رول دیا جاسکتا ہے تاکہ وہ اپنا کردار اچھے طریقے سے نبھا سکیں۔سلیم بخاری نے حامد خان کو آڑھے ہاتھوں لیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ یحییٰ آفریدی حکومتی پیش کش مسترد کر کے اپنی عزت بچا لیں، یعنی جس جسٹس کو حکومت نے آئینی طور پر منتخب کیا ہے وہ قابل قبول نہیں لیکن جو ججز پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتے ان کو چیف جسٹس لگا دیا جائے۔

توشہ خانہ ٹوکیس میں بشریٰ بی بی کی ضمانت منظور، لیکن رہائی نہ ہوسکی، اس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے معروف صحافی کا کہنا تھا کہ سینئر سپیشل جج سینٹرل شاہ رخ ارجمند کی عدم دستیابی کے باعث روبکار جاری نہ ہوسکی جبکہ سپیشل جج سینٹرل نمبر ٹو ہمایوں دلاور کی بھی رخصت کے باعث روبکار جاری نہ ہوسکی، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا نہیں ہو ا کہ رہائی کے آرڈر ہو گئے ہوں لیکن روبکا ر اسی دن جاری نہ ہوئی ہو،اس لیے کوئی انہونی بات نہیں ہے۔انہوں نے اس عمل  میں کسی خفیہ ہاتھ  کے عمل دخل کو یکسر مسترد کر دیا۔

بشریٰ بی بی کی رہائی  اور پارٹی سیاست پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ بشریٰ بی بی کا پہلے سے ہی پارٹی میں گروپ ہے اب تو وہ پہلے سے بھی زیادہ پارٹی کے معاملات میں دخل اندازی کریں گی جو کہ پارٹی میں انتشار کا باعث بنے گا اور پارٹی مزید حصوں میں تقسیم ہونے کا خدشہ ہے۔پارٹی میں فارورڈ بلا ک کی خبروں او ر شاہ محمود قریشی کے گروپ بننے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر باہر سے کوئی بات کرے تو شک کی گنجائش ہوتی ہے لیکن اب تو پارٹی کے اندر سے  فارورڈ بلاک کی آوازیں آ رہی ہیں اس کا مطلب ہے کہ کچھ تو  ایسا ہے ۔

مزیدخبریں