نئے چیف جسٹس کی تعیناتی،کیا انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے؟

Oct 24, 2024 | 09:49:AM

Read more!

(24 نیوز)کون ہوگا اگلا چیف جسٹس؟پارلیمانی کمیٹی نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی اگلے چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان مقرر ہوں گے۔صدرِ مملکت نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی تعیناتی 26 اکتوبر 2024 سے تین سال کے لیے کردی ہے۔جسٹس یحییٰ آفریدی کے بارے میں کہا جارہا تھا کہ شاید وہ عہدہ لینے سے انکار کردیں کیونکہ ابھی اُن کی مدت ملازمت میں 7 سال باقی پڑے ہیں جس کے مطابق اُنہوں نے 2030 میں ریٹائر ہونا تھا ۔چونکہ اب نئی آئینی ترامیم کے تحت چیف جسٹس بننے والا تین سال کیلئے اِس عہدے پر رہے گا جس کے بعد وہ ریٹائر ہوجائے گا چاہے اُس کی مدت ملازمت باقی کیوں نہ بچتی ہو ۔اِس لئے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ شاید وہ چیف جسٹس بننے سے انکار کردیں لیکن اُنہوں نے مبارکبادیں وصول کرنا شروع کردی ہیں جس کے بعد یہ اور بھی واضح ہوگیا ہے کہ وہ اگلے چیف جسٹس ہوں گے ۔ اب دو تہائی اکثریت سے پارلیمانی کمیٹی نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے ۔جس کے بعد آئندہ چیف جسٹس کے حوالے سے تمام ابہام دور ہوچکے ہیں ۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پارلیمانی کمیٹی میں ہونے والے اہم فیصلے سے میڈیا کو آگاہ کیا ۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے پروگرام میں یہ خبر 8 اکتوبر کو ہی بریک کردی تھی کہ جسٹس یحییٰ آفریدی اگلے چیف جسٹس ہوسکتے ہیں ۔اور یہی سوال ہم نے قانونی امور کے ترجمان بیرسٹر عقیل ملک سے پوچھا کہ اگلے چیف جسٹس کون ہوں گے تو اُنہوں نے کیا جواب دیا تھا ،یعنی ہماری پیش گوئی ٹھیک ثابت ہوئی ۔اب حکومتی نمائندے بھی یہ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ جسٹس یحییٰ آفریدی غیر جانبدار چیف جسٹس ثابت ہوں گے۔رانا ثنااللہ کہتے ہیں کہ جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ کی گروپنگ میں غیر جانبدار رہے، اُنہیں چیف جسٹس بنانا چاہیے،پھر اِسی طرح احسن اقبال کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں ایسے چیف جسٹس کی ضرورت تھی جو نسبتاً کم متنازعہ ہو۔

اب صاف ظاہر ہے کہ پی ٹی آئی جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس دیکھنا چاہتی تھی ۔اور ہمارے ذرائع کے مطابق اگر پی ٹی آئی خصوصی کمیٹی کا بائیکاٹ نہ کرتی تو اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوسکتے تھے؟کیونکہ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی ف جسٹس منصور علی کو چیف جسٹس بنانا چاہتی تھی لیکن ن لیگ نے آخری وقت میں پیپلزپارٹی کو قائل کرلیا اور یوں جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام چیف جسٹس کا قرعہ نکل آیا۔تو اِس اعتبار سے دیکھیں تو پی ٹی آئی نے اجلاس کا بائیکاٹ نہ کیا ہوتا تو شاید جسٹس مںصور علی شاہ اگلے چیف جسٹس ہوتے ۔یعنی پی ٹی آئی نے اجلاس کا بائیکاٹ کرکے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ۔لیکن پی ٹی آئی اپنی اِس غلطی کو ماننے کی بجائے حکومت پر ہی الزام تراشی کر رہی ہے ۔اب بہرحال حکومت کا یہ ماننا ہے کہ 26 ویں آئینی ترامیم قوم اور ملک کی مفاد مین کی گئی جس کے تحت الگ آئینی بینچ بنا کر عام سائیلین کے زیر التوا کیسز کی شنوائی اب ممکن ہوسکے گی ۔اب یہی وجہ ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد عدالتوں نے آئینی درخواستوں کی سماعت روک دی ہے۔خبر کے مطابق اب ملک بھر کی عدالتوں کےزیرسماعت 40فیصد درخواستیں آئندہ ماہ آئینی بینچوں کو ٹرانسفر کرنے کا عمل شروع کردیا جائے گا۔سپریم کورٹ اور پانچوں ہائیکورٹس کی آئینی درخواستوں، رٹ پٹیشنز کے فیصلے آئینی بینچ کریں گے۔

آئینی ترمیم کے بعد 20 لاکھ سے زائد کیسوں کے سائلین کو کم وقت میں انصاف کی فراہمی ممکن ہوگی۔ذرائع کے مطابق ضلع، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 20 لاکھ سے زائد ہے اور اس آئینی ترمیم کی منظوری نے عوام کو یہ اُمید باندھ دی ہے کہ اب مقدمات کے فیصلوں میں تیزی آئے گی۔اس کی دو وجوہات ہیں ملک کی عدلیہ، ڈسٹرکٹ عدالتوں، ہائیکورٹس، سپریم کورٹ میں موجود کم وبیش 40فیصد مقدمات آئندہ ہفتے تشکیل پانے والے آئینی بینچوں میں منتقل ہو جائیں گے اور دوسری وجہ ہائیکورٹس کے ججوں کی کارکردگی کا جوڈیشل کمیشن وقتاً فوقتاً جائزہ لیا کرے گا۔جس کے بعد لوگوں کو جلد انصاف ملنے لگے گا کیونکہ سوموٹو کیس فرمائشی درخواستوں اور رٹ پٹیشنوں میں کیسز طوالت اختیار کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے عوامی مسائل سے جڑے کیسز نظر انداز ہوجاتے ہیں۔لیکن 26ویں آئینی ترمیم نافذ ہونے سے ملک بھر کے عوام کو توقع ہے کہ اس ترمیم کے نتیجے میں سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ جس میں مقدمات کی سماعت میں تیزی آئے گی اور انصاف کے تقاضے بہتر طور پر پورے ہوں گے۔

مزیدخبریں