(ویب ڈیسک )پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وزیر اعظم شہباز شریف کے سیاسی مشیر رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف کیسز بنتے ہیں لیکن میں ان کا دائرہ کار خواتین کی حد تک پھیلانے کے خلاف ہوں، میں عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور بہنوں کے خلاف کیس بننے کے حق میں نہیں ہوں۔
سابق وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے پی ٹی آئی کو جسٹس منصور علی شاہ راستہ روکنے کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے ان کے حق میں بیانات دے کر ان کا راستہ روکا،واضح رہے کہ گزشتہ دنوں 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے تقرر کا طریقہ کار تبدیل ہو گیا ہے اور اب خصوصی پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ترین ججوں میں سے کسی ایک کا مشاورت کے بعد تقرر کرے گی۔
اس نئے طریقہ کار کے سبب عدالت عظمیٰ کے سب سے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ کی جگہ فہرست میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی کو چیف جسٹس کے عہدے کے لیے نامزد کیا گیا ہے اور پی ٹی آئی سمیت ناقدین کا کہنا ہے کہ اس ترمیم کا مقصد جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنا تھا،اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے ’انڈیپنڈنٹ اردو‘ سے خصوصی گفتگو میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ جسٹس منصور کا راستہ تو روکا گیا ہے لیکن ان کا راستہ روکنے میں حکومت یا کسی اور کا عمل دخل کم اور پی ٹی آئی کا زیادہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایسا انتشاری ٹولہ ہے کہ مخالفت تو دور، یہ کسی کی حمایت بھی کرتے ہیں تو نقصان ہوتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ بہت قابل جج اور اچھے انسان ہیں اور ان کے متعلق جو بھی چیزیں ہوئی وہ ان پی ٹی آئی والوں نے کی،انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے پارٹی کے اندر یہ بات کی جو باہر آئی کہ ہماری بات ہو گئی ہے، اکتوبر میں منصور علی شاہ آرہے ہیں اور وہ آکر ان کا بندوبست کر دیں گے، جب کوئی جماعت اس انداز میں بات کرے تو پھر یہ سب چیزیں نقصان پہنچاتی ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ اس ترمیم میں اس چیز کا عمل دخل ہے یا نہیں ہے لیکن یہ اس شخص کی ساکھ کو خراب کرتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ جسٹس منصور آئینی بینچ کے سربراہ بھی نہیں ہوں گے، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل بڑے معزز جج ہیں، کسی ایک آدمی کو نشانہ کیوں بنایا جائے،انہوں نے کہا کہ اس ترمیم میں کسی کا حصہ نہیں ہے، صرف ایک شخص کا حصہ ہے جس کا نام مولانا فضل الرحمٰن ہے، بات بڑی سیدھی سی ہے کہ وہی ہوا ہے جو مولانا فضل الرحمٰن نے چاہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اطلاعات نے پی ٹی آئی پر پابندی کے حوالے سے جو پریس کانفرنس کی تھی اس کی تھوڑی دیر بعد ہی پارٹی نے تردید کردی تھی، وزیر اطلاعات نے دن میں تین چار پریس کانفرنس کرنی ہوتی ہیں تو ایک آدھ بات ادھر ادھر ہو جاتی ہے۔