افغانستان سے پیچھا چھڑاکرامریکا کی چین سے نمٹنے کی تیاریاں
Stay tuned with 24 News HD Android App
(نیوز ایجنسی)امریکی صدر جو بائیڈن اقوام متحدہ میں چار رکنی سکیورٹی ڈائیلاگ میں شرکت کر رہے ہیں۔ انہیں عام طور پر’ ’دی کواڈ“ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک غیررسمی سٹریٹجک فورم ہے جس میں امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا شامل ہیں۔
امریکی نیوز چینل سی این این کے مطابق ’دی کواڈ‘ کے نام سے معروف اس اتحاد میں شامل تمام چاروں ممالک کا مشترک نکتہ یہ ہے کہ ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا توڑ کیسے کیا جائے۔افغانستان سے انخلا کے بعد امریکاچین کے آگے بند باندھنے میں فکر مند ہو گیا۔اس لئے امریکی صدرجوبائیڈن جاپان آسٹریلیا اور انڈیا کے وزرائے اعظم سے ایک آزاد اور کھلے انڈوپیسیفک کی حمایت کے بارے میں بات کریں گے۔یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جب امریکا کی ایشیا سے متعلق پالیسی میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہو چکی ہے۔اس وقت امریکا اس خطے میں اپنے سفارتی روابط بڑھا رہا ہے جبکہ جاپان چین کے بڑھتے ہوئے عسکری رسوخ کے خلاف سخت موقف اپنائے ہوئے ہے۔دوسری جانب امریکا کے آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ نئے دفاعی معاہدے سے بھی یہ بات عیاں ہے کہ امریکا ایشیا کے بارے میں کافی دلچسپی سے اقدامات کر رہا ہے۔اس نازک موڑ پر یہ دیکھنا بہت اہم ہے کہ یہ ’کواڈ‘ آگے جا کر کیا کرتا ہے۔
آسٹریلوی سٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر تجزیہ کار میلکم ڈیوس نے کہا کہ ’جارج ڈبلیو بش انتظامیہ کے دور میں اس اتحاد (کواڈ) کی ابتدائی جڑیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ ’کم اہمیت کے حامل سیاسی اور معاشی مکالمے‘ کے فورم سے آگے بڑھ کر اب ایشیا پیسیفک خطے کا ایک بہت اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔میلکم ڈیوس کے مطابق ’کواڈ ایشیائی نیٹو نہیں ہے لیکن ساتھ ہی یہ واضح طور پر کوآپریٹو سکیورٹی اپروچ کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔’کواڈ‘ نامی یہ اتحاد ابتدائی طور پر 2007 میں تجویز کیا گیا تھا لیکن اسے ایک دہائی کے لئے روک دیا گیا۔ پھر اسے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں چین کی اقتصادی اور عسکری سپر پاور کے طور پر اٹھان کے دوران بحال کیا گیا۔سنہ 2017 کے بعد ایشیا میں سفارتی ماحول نمایاں طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور ’کواڈ‘ نے پہلے سے کہیں زیادہ زیادہ اہمیت حاصل کرلی ہے۔اپریل 2020 میں آسٹریلیا اور چین کے درمیان تعلقات میں اس وقت بڑی تنزلی آئی جب آسٹریلوی وزیراعظم سکاٹ موریسن نے کووڈ 19 وبا کے آغاز کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔اس کے بعد بیجنگ نے آسٹریلوی اشیا پر تجارتی پابندیاں لگا کر جوابی کارروائی کی اور ان دونوں ممالک کے تعلقات ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے۔
دوسری جانب واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات جو ٹرمپ کے دور میں خراب ہوئے تھے، نئے امریکی صدر بائیڈن کے دور میں مزید خراب ہو گئے ہیں کیونکہ امریکانے چین پر قابو پانے کے لئے ایشیا میں اپنی سفارتی سرگرمیوں کو مستحکم کیا ہے۔جاپان نے بھی خطے میں امریکا کی زیادہ دلچسپی کا خیرمقدم کیا ہے اور جاپان نے گزشتہ ایک سال کے دوران بیجنگ سے تیزی سے چوکنا ہو گیا ہے۔ستمبر میں سی این این کے ساتھ ایک غیر معمولی انٹرویو میں جاپانی وزیر دفاع نوبو کیشی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ جاپان چینی کارروائی کے خلاف ’مشرقی بحیرہ چین میں اپنی سرزمین کا‘ بھرپور دفاع کرے گا۔امریکا کے جرمن مارشل فنڈ میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر بونی گلیسر نے کہا کہ بھارت اب ’‘کواڈ“ کا سب سے زیادہ محتاط رکن ہے اور یہ گروپ دفاعی تعاون اور چین کی مخاصمت کو آگے بڑھانے کے لئے کس حد تک تیار ہے یہ انڈیا پر منحصر ہے۔
سنہ 2020کے وسط میں انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تصادم، جس کے نتیجے میں کم سے کم 20 انڈین فوجی ہلاک ہوئے، کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ دہلی بیجنگ سے دشمنی کرنے سے گریزاں ہے۔تاہم 2021 کے اوائل میں جرنل آف انڈو پیسیفک افیئرز میں نئی دہلی میں سینٹر فار لینڈ وارفیئر سٹڈیز کی ریسرچ فیلو امرتا جش نے لکھا کہ ’انڈیا ابھی بھی فوجی مشقوں، ہتھیاروں کی خریداری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے اقدامات سے امریکاکے قریب جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں۔حریم شاہ کی شوہر کیساتھ شیشہ پیتے نئی ویڈیو سامنے آگئی