جمہوریت کیلئے نسلیں قربان، آئینی عدالت بنا کر رہیں گے، بلاول بھٹو کا اعلان

سندھ ہائیکورٹ سےہماراتعلق تین نسلوں سےہے، ہم ایک دوسرے کو اندر اور باہر سے جانتے ہیں،چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا وکلاء سے خطاب

Sep 24, 2024 | 14:36:PM

Read more!

(ویب ڈیسک)چئیرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے ہم نے نسلوں کی قربانیاں دی ہیں۔ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے سندھ ہائیکورٹ بار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ ہائیکورٹ سےہماراتعلق تین نسلوں سےہے، ہم ایک دوسرے کو اندر اور باہر سے جانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں تو اس خاندان اور  جماعت سےتعلق رکھتاہوں جس نےآئین دیا، ہماری تاریخ کچھ ایسی ہے کہ ہم نے آمرانہ دور بھی دیکھا ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ کیسے 1973 کے آئین کو ایک آنکھ کی لرزش اور ہونٹوں کی جنبش سے اڑا دیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کس طریقے سے ہمارے معزز جج صاحبان آمر کو یہ کام کرنے دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ 10 ،10 سال جمہوریت اور آئین کو بھول جاتے ہیں اور سارا اختیار ایک آمر کو دے دیا جاتا ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا مزیدکہنا تھا کہ ہمارے آئین کو ایک کاغذ کا ٹکرا سمجھ کر پھاڑا گیا اور اس سے افسوس ناک بات یہ کہ جج صاحبان نے آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی نے 28 ستمبر کو راولپنڈی میں جلسے کیلئے درخواست دیدی

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اتنے کرپٹ ہیں کہ آپ پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، پاکستان کا جمہوری نظام ایسا ہے کہ ہم صرف ایک پی سی او جج برداشت کرسکتے ہیں، اگر ایک دفعہ ایک جج پی سی او کا حلف لیتے ہیں تو تب آئین اور جمہوریت کو مسئلہ ہوتا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کی بحالی کے لیے نسلوں کی قربانیاں دی ہیں تاکہ عوام کی مرضی چلے تا کہ آپ پارلیمان میں ایسے نمائندے بھیجیں کہ آپ کی مرضی کا قانون اور آپ کی مرضی کا آئین بنے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ ہمارے آئین کو ایک کاغذ کا ٹکرا سمجھ کر پھاڑا گیا اور اس سے افسوس ناک بات کہ جج صاحبان نے آمر کو آئین میں ترمیم کرنے کی اجازت دی۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اتنے کرپٹ ہیں کہ آپ پر آئین اور قانون لاگو نہیں ہوتا، پاکستان کا جمہوری نظام ایسا ہے کہ ہم صرف ایک پی سی او جج برداشت کرسکتے ہیں، اگر ایک دفعہ ایک جج پی سی او کا حلف لیتے ہیں تو تب آئین کو اور جمہوریت کو مسئلہ ہوتا ہے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے جمہوریت کی بحال کے لیے نسلوں کی قربانیاں دی تاکہ عوام کی مرضی چلے تا کہ آپ پارلیمان میں ایسے نمائندے بھیجیں کہ آپ کی مرضی کا قانون بنے اور آپ کی مرضی کا آئین بنے۔

انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاق جمہوریت پر دستخط کر کے یہ طے کیا کہ اگر ہم نے پاکستان کا نظام ٹھیک کرنا ہے اور جمہوریت کو بحال کرنا ہے، عوام کے مسائل حل کرنے ہیں تو میثاق جمہوریت جیسے معاہدوں کو لاگو کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس میثاق جمہوریت کے تحت 18 ویں ترمیم پاس کرنے اور 1973 کے آئین کو بحال کرنے کے بعد ہم نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے نامکمل مشن کو پورا کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت جب افتخار چوہدری پی سی او جج تھے کوئی انقلابی نہیں، شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ طےکیا تھا کہ آئینی عدالت بنے گی اور عدالتی اصلاحات ہوں گی اور عوام کو فوری انصاف ملے گا۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ہم نے اپنے ماضی سے سبق سیکھے ہیں، ہم اپنی وکلاء برادری کی بہت عزت کرتے ہیں، قانون سازی اور آئین سازی عدالت کے ذریعے نہیں ہوسکتی لیکن جج صاحبان نے 184 اور 186 کے نام پر خود کو اختیار دیا ہے کہ وہ آئین سازی کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عدالتی نظام ٹوٹ چکا ہے، عدالتوں میں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں اور مجھے انصاف کے حصول کے لیے 45 سال انتظار کرنا پڑا۔

بلاول بھٹو کا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے شہریوں کو فوری انصاف ملے اور کسی صوبے کے درمیان کوئی فرق نہ رہے تو پھر وفاقی آئینی ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی عدالت میں ہر صوبہ کی برابر کی نمائندگی ہوگی، وفاقی عدالت کا چیف جسٹس روٹیشن پر ہوگا اور ہر صوبہ کو اپنے چیف جسٹس کی نمائندگی کرنے کی باری ملے گی۔

پیپلز پارٹی چیئرمین نے بتایا کہ ہمارے عدالتی نظام میں 15 فیصد سیاسی مقدمات میں 90 فیصد وقت لیا جاتا ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ عوام کو انصاف فراہم کیا جائے تو جس کام کے لیے یہ ادارے بنے ہیں ان کو وہ کام کرنے دیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 58 ٹو بی اور 63 اے آئین میں ایک ایسا ہتھیار تھا جس کو استعمال کرکے جمہوری حکومتوں کو غیر جمہوری طریقے سے گھر بھیجا گیا، اس کالے قانون کو ختم کرنے کے لیے طویل جدوجہد کی گئی اور آخر کار اس کو ختم کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کے ساتھ 58 ٹو بی کا اختیار عدالت نے اپنے پاس رکھ کر منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھیجا گیا، عدالت نے آئین میں ترمیم کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا اور انہوں نے 63 اے کے فیصلہ میں آئین میں ترمیم کی، اگر آپ وزیراعظم، کسی جج اور کسی ادارے کی نیت پر شک کرتے ہیں تو کریں لیکن میری نیت پر شک نہ کریں، آئین کی بالادستی کی جنگ میں خود لڑوں گا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام صوبوں کو منصفانہ نمائندگی حاصل ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم آئینی عدالت بنا کر رہیں گے تاکہ کسی اور وزیراعظم کو تختہ دار پر نہ لٹکایا جائے اور اس ملک کی عوام کو انصاف ملے۔فلور کراسنگ سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ امریکا ، برطانیہ کا نظام اٹھاکر دیکھ لیں وہاں کوئی اس قسم کی پابندی نہیں کہ وہ اپنی پارٹی پالیسی پر پابند ہو اور وہ اپنی پارٹی لائن توڑنے میں آزاد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 63 اے میں جو ترمیم لے کر آئے جو پہلے نہیں تھا، جس میں ہم نے کہا کہ ہم ممبر، آئینی ترمیم اور بجٹ ، عدم اعتماد پر پابند ہے کہ وہ اپنی پارٹی کی لائن کی پابندی کرے لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتا تو وہ ان کے پاس اختیار تھا کہ وہ اپن ووٹ ڈالے۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ ہم نے یہ لکھا اس میں کہ اگر کوئی پارلیمنٹیرین ان اہم معاملات پر پارٹی لائن توڑ کر ووٹ کاسٹ کرتا ہے تو وہ ووٹ گنا جائے گا جب کہ ہمارے پاس اور نہ کسی عدالت کے پاس یہ اختیار ہے اور نہ ہی ہونا چاہیے کہ وہ کسی پارلیمنٹیرین پر پارٹی لائن فالو کرنے کی پابندی رکھے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ ایک مقصد کے تحت 63 اے کا فیصلہ سنایا گیا، ہم نہیں چاہتے کہ فلور کراسنگ آسان ہو، ہم چاہتے ہیں کہ ایسا کرنے والے کے لیے سخت سزا ہو اور جب اسے یہ خطرہ ہوگا کہ فلور کراسنگ کی صورت میں اس کے حلقے میں ضمنی انتخاب ہوگا تو وہ اپنے ووٹ پر سوچے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب یہ کہا جائے گا کہ فلور کراسنگ پر اس پارلیمنٹیرین کو تاحیات نااہل کردیا جائے گا اور اس کا دیا گیا ووٹ بھی شمار نہیں ہوگا، اس کا مطلب آپ اس ممبر کو مجبور کررہے ہیں جسے بجٹ پسند نہیں یا پھر وہ آئی ایم ایف کی شراط سے متفق نہیں یا پھر آئینی ترمیم پر رضا مند نہیں لیکن پھر آپ اسے تاحیات نااہلی کی سزا پر دھمکا کر مجبور کررہے ہیں کہ وہ اس پر ووٹ دے۔

مزیدخبریں