(24نیوز) سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ازخودنوٹس کے دائرہ اختیار اور تعین کیلئے قائم بنچ پر اعتراض اٹھا دیااور کہاہے کہ پانچ رکنی معزز بنچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں،اگر پانچ رکنی لارجر بنچ نے سماعت جاری رکھی تو یہ آئین سے تجاوز ہوگا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا جس میں کہاگیا کہ پانچ رکنی لارجر بنچ بنانے سے قبل دو رکنی بنچ کو آگاہ نہیں کیا گیا،آئین پاکستان میں سپریم کورٹ کا سماعت کیلئے مختلف دائرہ اختیار ہے، سپریم کورٹ کا ایسا کوئی دائرہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے ہی بنچ کے امور کی مانیٹرنگ شروع کردے۔خط میں کہاگیاکہ پانچ رکنی معزز بنچ کو یہ مقدمہ سننے کا اختیار ہی نہیں۔
خط میں کہاگیاکہ رجسٹرار سپریم کورٹ جو سرکاری ملازم ہے وہ بلاشبہ خود کو ایک منصف اور آئینی ماہر سمجھتا ہے۔ متن میں کہاگیاکہ رجسٹرار سپریم کورٹ نے فوری طور پر نوٹس لیا اور چھ صفحات پر مشتمل نوٹ چیف جسٹس کو بھجوا دیا، اگر ایک بنچ دوسرے بنچ کی مانیٹرنگ شروع کردے تو اس سے نظام عدل زمین بوس ہو جائےگا۔ متن میں کہاگیاکہ ماضی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے سماعت کے دوران بنچ میں موجود اپنے ہی جج کو نکال کر نیا بنچ تشکیل دیا،جسٹس منصور علی شاہ نے بعد میں الگ حکم نامہ جاری کیا۔ متن میں کہاگیاکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس معاملے پر تاحال غور نہیں کیا گیا، کچھ چیف جسٹس صاحبان کی خواہش ہے کہ بلا روک ٹوک اختیارات کو اپنے پاس رکھیں۔
متن میں کہاگیاکہ چیف جسٹس یہ تعین نہیں کر سکتے کہ کون سا کیس کس بنچ میں مقرر ہوگا، بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ میں نے کبھی مجوزہ کازلسٹ جاری نہیں کی، سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ تقرر کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ متن میں کہاگیاکہ سرکاری ملازم کو رجسٹرار سپریم کورٹ مقرر کرنا جوڈیشل سروس میں موجود افسروں کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔ خط میں کہاگیاکہ عدلیہ نے ڈیپوٹیشن پر آئے ملازمین کو واپس بھیجا لیکن ڈیپوٹیشن ملازم رجسٹرار سپریم کورٹ کام کر رہا ہے، رجسٹرار سپریم کورٹ اس سے قبل وزیراعظم آفس میں کام کرتے رہے ہیں، رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکومت سے ادھار کے طور پر لیا گیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کو لانے کا مقصد حکومتی دلچسپی کے مقدمات فوری مقرر کرنا تھا۔
خط کے متن میں کہاگیاکہ رجسٹرار سپریم کورٹ کو حکومت سے ادھار مانگ کر لانے کا مقصد حکومت کے ناپسندیدہ کیسز کو دبا کر رکھنا تھا،رجسٹرار سپریم کورٹ کا میرے بنچ کے خلاف نوٹ لکھنا حکومتی مفاد اور اپنے سابقہ ساتھیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے، ازخود نوٹس کے اختیار سے متعلق نو رکنی بنچ کا فیصلہ موجود ہے، نو رکنی بنچ فیصلے میں قرار دے چکا ہے کہ آرٹیکل 184(3) غیر معمولی دائرہ اختیار رکھتا ہے۔ خط میں کہاگیاکہ موجودہ پانچ رکنی بنچ نو رکنی کا فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتا، ایک مرتبہ نامعلوم نمبر سے وصول ہونے والے وٹس ایپ میسج پر ازخودنوٹس لیا گیا، وٹس ایپ ازخودنوٹس کی وجہ سے قومی خزانے کو 100 ارب روپے کا نقصان ہوا۔متن میں کہاگیاکہ جب اس فیصلے پر نظر ثانی ہوئی تو مرکزی بنچ میں شامل جج جسٹس اعجازالاحسن نے اضافی نوٹ لکھ کر نظر ثانی سے اتفاق کیا،ریکوڈک کیس میں پاکستان کو عالمی مقدمہ بازی کا سامنا کرنا پڑا اور 6.4 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے کہا عدلیہ میں تقسیم ہے، مجھے فرائض کی ادائیگی کی وجہ سے عوامی تاثر کی بنیاد پر طنز کا نشانہ بنایا گیا۔
متن میں کہاگیاکہ وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کیس میں لارجر بنچ بنا کر جسٹس مقبول باقر کو بنچ سے الگ کر دیا گیا، اس کیس میں جلدبازی میں غیر آئینی حکمنامہ جاری کیا گیا اور چیف جسٹس بنچ سے اٹھ کر چلے گئے، مجھے اس فیصلے میں وزیراعظم کے خلاف مقدمہ سننے سے ہی روک دیا گیا، میرے معزز ساتھی ججز نے مجھے اپنی بات کہنے کا موقع نہیں دیا، میرے ساتھی ججز سے اب بھی اچھے تعلقات برقرار ہیں، اس عوامی تاثر سے انکار کیا جا سکتا کہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو ٹارگٹ نہیں کیا جارہا۔
خط میں کہاگیاکہ اس طرح کے برتاؤ کے باوجود میں نے اپنے ساتھی ججوں سے بہتر برتاو¿ روا رکھا ہے، اگر میرے ساتھی ججز کو کوئی اعتراض تھا تو وہ اس معاملے کو بنچ نمبر دو میں لے کر آتے، حیران کن طور پر یہ معاملہ اتنا خفیہ رکھا گیا کہ مجھے سپریم کورٹ کے بجائے میڈیا سے معلوم ہوا، 24 اگست کے حکمنامہ میں کہا گیا کہ ہم اصل سٹیک ہولڈرز کو سننا چاہتے ہیں۔ خط میں کہاگیاکہ پاکستان کا ہر شہری آزادی صحافت کے لئے سٹیک ہولڈر ہے، اس خط کی کاپی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں۔مینار پاکستان واقعہ۔۔ ملزموں کو سزائے موت؟ عدالت سے اہم خبر
ازخودنوٹس کا دائرہ اختیار اور تعین۔جسٹس فائز عیسیٰ نے قائم بنچ پر اعتراض اٹھا دیا
Aug 25, 2021 | 19:30:PM