(24نیوز) وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں انگریز دور کا طبقاتی نظام مکمل طور پر ختم کرنا ہوگا ،کسی بھی دوسرے کلچر کی ذہنی غلامی بڑے مقصد اور کام میں بڑی رکاوٹ ہوتی ہے،یکساں نصاب تعلیم سماجی تفریق کے خاتمے کیلئے ناگزیر ہے ،ہمیں مغربی کلچر کی ذہنی غلامی سے نکل اپنی ثقافت اور اقدار کا اپنا نا ہوگا ،انگریزی سٹیٹس سمبل نہیں ہونا چاہئے ،ماضی کی حکومتوں نے تعلیم کے فروغ کیلئے کچھ نہیں کیا ، یہاں تعلیم ترجیح ہی نہیںرہی،ماضی کی حکومتوں کی توجہ ہمیشہ قلیل مدت منصوبوں کے ذریعے آنے والے انتخابات جیتنے پر مرکوز ہوتی تھی۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے پنجاب ایجوکیشن کنونشن2021 میں بطور مہمانِ خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے ملک میں بد قسمتی سے کسی نے بھی تعلیم پر زور نہیں دیا کیونکہ تعلیم ترجیح ہی نہیں تھی ،یہاں جس طرح کی جمہوریت رہی ہے اس میں یہ ہوتا تھا کہ پانچ سال کے بعد انتخابات ہیں اس کے مطابق منصوبہ بندی کرو۔88ءسے 99ءتک تو حکومتیں ڈھائی سال چلتی تھیں ۔یہاں جو بھی اقتدار میں آتا تھا وہ یہ سوچتا تھا کہ ایسا کام کروں کہ اگلا انتخاب جیت جاﺅں ۔یہاں یہ سوچ تھی کہ میں نے میٹرو بنانی ہے اسے پانچ سال میں مکمل کروں گا اس کے بعد اشتہار دے کر جیت جاﺅں گا۔ اس ملک میں کسی نے ڈیمز بنانے پر توجہ نہیں دی تاکہ ہمیں سستی او رصاف بجلی مل سکتی ۔ جمہوری حکومتوں کی بجائے ملٹر ی ڈکٹیٹرز کے دور میں د وبڑے ڈیمز بنائے گئے اور ان سے پاکستان کو کتنی دیر تک فائدہ ہوا ہے ، انڈسٹری اور عام عوام کو فائدہ ہوا ،یہاں کسی نے مستقبل کی نسلوں کا نہیں سوچااور ہمیںمہنگے درآمدی ایندھن سے مہنگی بجلی بنانی پڑی ۔
انہوں نے کہا کہ یہاں کسی کی دور کی سو چ نہیں تھی بلکہ صرف مختصر سوچ اپنائی گئی کہ میں جیت جاﺅں اور نسلوں کے لئے نہیں سوچا کہ ہم ملک کو تباہ کر رہے ہیں ، یہاں جنگلات کو تباہ کر دیا گیا ، جو انگریز چھوڑ کر گئے تھے ہم نے انہیں بھی تباہ کر دیا ،پورے پورے جنگلات کی تباہی کی گئی ۔ اب ہم دس ارب درخت اگا رہے ہیں جس کا مستقبل میں بڑا مثبت اثر پڑے گا ۔انہوں نے کہا کہ اب ہم یکساںنصاب لائے ہیں ۔ہمارے ہاں انگریز کے تعلیمی نظام کو لیا گیا ، انگریز نے یہ تعلیمی نظام کیوں بنایا تھا؟ ۔اس کا مقصد یہ تھاکہ وہ ایک ایسی کلاس بنانا چاہتے تھے کہ وہ کلاس ہو تو ہندوستانی لیکن وہ ان کی طرح سوچے ان کے رویے بھی انگریزوں کی طرح ہوںتاکہ ہم اتنے بڑے بر صغیر پر حکومت کریں ، یہ براﺅن صاحب تھے ۔ انہوں نے کہا کہ جب میںایچی سن کالج سے تعلیم حاصل کر کے نکلا تو انگلینڈ کیا ،مجھے ایسا لگا کہ مجھے ایک انگلش پبلک سکول بوائے بنایا گیا ہے ،مجھے پاکستانی نہیں بنایا گیا مجھے اپنے کلچر سے دور کیا گیا ، اس تعلیمی نظام کے ذریعے دین سے دور کیا گیا ۔ یہ صرف پاکستان میں نہیں تھاکہ بلکہ جہاں جہاں انگریز نے حکومت کی اس نے وہاں ایک چھوٹی سے انگلش میڈیم کلاس کو بنایا ۔جب ہم آزاد ہوئے تو اصولاً ہمیں سب سے پہلے تعلیم کا نظام ٹھیک کرنا چاہیے تھا ،ایک ہی نصاب لانا چاہئے تھا تاکہ ایک قوم بنتی لیکن اس کی بجائے ہم تین طرف نکل گئے ،جس میں دینی مدرسے ،اردو میڈیا میڈیم اور ایک چھوٹی سی کلاس کے لئے انگلش میڈیم کا نظام پروان چڑھا ، ان کا تعلیم کے بجائے دیسی اورولایتی بنانے پر زور تھا ،ہم نے وہی طور طریقے لے لئے ذہنی غلامی لے لی جو دوسری کلچر کی تھی، جب اس طرح ہوتا ہے تو ہم کسی او رکلچر کے ذہنی غلام بن جاتے ہیں ،آپ اچھے غلام تو بن سکتے ہیں لیکن آپ بڑا کام نہیں کر سکتے ،غلام کبھی بڑا کام نہیں کر سکتا۔ آج مغرب کہاں سے کہاں پہنچ گیا ۔آج ہم ایک نصاب لے کر آئے تو کہتے ہیں کہ آپ پاکستان کو پیچھے لے کر جارہے ہیں حالانکہ جاپان ،چین او رفرانس میں اسی کے ذریعے ایک قوم بناتے ہیں ۔ انہوںنے کہا کہ اگر عمران خان کے بچے انگلش میڈیم میں پڑھ رہے ہیں تو انہیں اس تعلیمی نظام اچھی نوکریاں ملیں گی ان کا سٹیٹس بن جائے گا ان کی اچھی جگہ شادیاں ہو جائیں گی ،بجائے اس کے ہم انگریز کا سسٹم تبدیل کرتے ہم نے اس کو او روسیع کر دیا ، یہ سکول تھوڑے تھے ہم نے ان کواور زیادہ کر دیا ۔اگر آج کسی نے پیسہ بنانا ہے تو ایک سکول بنائے اس کا انگریزی طرز کا نام رکھے اورآرام سے پیسے بنا سکتے ہیں ،یہاںحکومتوں کی کوتاہی یہ تھی ا نہوںنے تعلیم کے نظام مضبوط نہیںکیا ، ایک وقت وہ بھی تھا کہ ہم دنیا میں تیزی سے آگے جارہے تھے ، ساﺅتھ کوریا اورملائیشیاءنے ہم سے ماڈل لیا ، اگر ہمار ا صدر امریکہ گیا تو وہاں امریکی صدر اس کے استقبال کے لئے آیا تو پاکستان کی کوئی حیثیت ہو گی ، آہستہ آہستہ ہمار املک نیچے آنا شروع ہو اور اس کی ابہت بڑی وجہ تعلیم کا نظام تھا ۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہاں ایلیٹ سسٹم بنا دیا ،اچھی تعلیم صرف چھوٹے سے طبقے کے لئے تھی جبکہ باقیوں کے لئے ارد ومیڈیم رہنے دیا ۔ ایک دور تھا کہ سرکاری سکولوں سے پاکستان کے بہترین انٹیلکچول نکلتے تھے ، اس وقت سرکاری سکولوں کا معیا ربہت بہتر ہوتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ نیچے جانا شروع کر گئے ۔سرکاری سکولوںکے اچھے اساتذہ نے پرائیویٹ سکول کھول لئے یا پھر پرائیویٹ سکولوں میں ملازمتیں کر لیں ، انگریز کے نظام تعلیم کے ذریعے ہم دوسرے کلچر کا غلام بنا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت تعلیم کے میدان میں جو کام کر رہی ہے ایک وقت آئے گا کہ لوگ جانیں گے ،آج واقعی ٹرننگ پوائنٹ ہے ،یہ ایک دم ٹھیک نہیں ہوگا یہ مشکل ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ہم تھوڑے سے لوگوں کو انگریزی پڑھائیں بلکہ ہم سب کو پڑھائیں لیکن انگزیزی سٹیٹس سمبل نہ بنے، یہاں تقریبات انگریزی زبان میں ہو رہی ہوتی ہیں،جب وزیر اعظم بنا تو تقریب انگریزی میں شروع ہو گئی ، میں نے پوچھا تو بتایا کہ دو سفیروں کے لئے تقریب انگریزی میں ہے ۔ ٹی وی پر عام لوگ دیکھ رہے ہیں اور جو انگریزی نہیں سمجھتے ان کی کتنی بڑی توہین ہے ، 80فیصد لوگوں کو انگریزی نہیں آتی ،کیا کوئی ہم نچلی قوم ہیں،اپنے لوگوں کے اندر احساس کمتری کیوں پیدا کریں۔کہیں چائنیز بیٹھے ہوں کبھی دیکھا ہے وہ انگریزی بولیں ، ہماری پارلیمنٹ اور سینیٹ میں بھی انگیریزی میں بات کی جاتی ہے وہ متاثر کرنا چاہتے ہیں، اگر کسی کو غصہ چڑھ جاتا ہے تو وہ انگریزی میں تقریر شروع کر دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے لوگ کو ایک نصاب دیں گے اور تاریخ میں بہت بڑی تحریک ہے ، اس کا آہستہ آہستہ پتہ چلے گا کہ اس کا کتنا اثر پڑے گا، ہم کیوں نہ سب کو انگریزی سیکھنے کا موقع دیں ، بچوں کو ہمیشہ اپنی زبان میں پڑھانا چاہیے ، دنیا کی ریسرچ ہے کہ بچہ جتناتیزی سے اپنی زبان میں سیکھتا ہے کسی اور زبان میں نہیں سیکھتا ۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں، ہمارے ہاں کرپشن نیچے تک پہنچ گئی ہے او رلوگ عادی ہو گئے ہیں ۔ہم سوچ رہے ہیں کہ ایف بی آر کو آٹو میشن پر لے کر آئیں ، جیسے جیسے محکمے اور لوگوں کا رابطہ کم ہوگا کرپشن نیچے آ جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ ہم کابینہ کو بھی ای گورننس پر لائے ہیں، کابینہ کا سارا نظام پیپر لیس ہو گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں ٹیکنالوجی جس تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے تاریخ میں اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ہم نے اپنی عوام کو ٹیکنالوجی کی طرف لے کر آنا ہے ،آج تو بچے ٹیکنالوجی موبائل فون سے سیکھ جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے بچوں کو تربیت دینی ہے وہ بہت ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مینار پاکستان پر جو واقعہ ہوا اس پر بہت شرم آئی بہت تکلیف ہوئی ، ہم کبھی ایسا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ اس طرح کی حرکتیں ہوں گی ۔ میں سار ی دنیا میں گیا جو عزت عورت کومسلم دنیا میں حاصل ہے وہ وہ مغرب میں نہیں۔آج ہمارے ہمارے بچوں کی تربیت صحیح طرح نہیں کی جارہی ، جو حرکتیں کی جارہی ہیں وہ ہمارے دین اور کلچر کا حصہ نہیں ۔ موبائل فون کا منفی استعمال بڑھ گیا ہے ،بچوں کی تربیت کریں ، تربیت کرنے کا ایک ہی طرقہ ہے کہ انہیںنبی کریم کی زندگی سے آگاہ کریں کیونکہ وہ دنیا میں سب سے عظیم انسان تھے ۔ ہمیں بچوںکو بتانا ہے کہ وہ ایک عظیم انسان کیسے بنے ، بچے کامیاب لوگوں کو فالو کرتے ہیں ان کو پڑھتے ہیں ، ہمیں بتانا چاہیے کہ ان کی کامیابی کا راز کیا ہے ،دنیا کی تاریخ میں نبی کریم سے زیادہ کامیاب انسان نہیں آیا ، قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ ان کی زندگی سے سیکھیں ، قرآن میں جو حکم ہے وہ ہماری بہتری کے لئے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے بچوں کو آگاہ کرنا ہے کہ نبی کریم کیسے دنیا کا سب سے بڑا نقلاب لے کر آئے ، ان میں کیا خصوصیات تھیں،وہ صادق اور امین تھے ،کوئی بھی تب تک بڑا لیڈر نہیں بنتا جب تک وہ صادق اورامین نہ ہو ۔ قائد اعظم کے مخالف بھی انہیں صادق او رامین کہتے تھے ،نیلسن منڈیلا کی بھی یہی خصوصیت تھی ۔ انہوںنے وزیرتعلیم کو ہدایت کہ کہ بچوں کو ٹیکنالوجی کے ساتھ نبی کریم کی سیرت بھی پڑھائیں ،اسے ہمیں لازمی اور ہر صورت پڑھانا ہے ۔انہوں نے ڈاکٹر مراد راس کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ میںاپنی وزارت کے لئے کام کرنے کا جنون ہے ، جب ہم آپ کی طرح کسی وزیر کو دیکھتے ہیں تو انہیں بھرپور سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ پہلا سال تو سیکھنے میںلگ جاتا ہے آپ کے پاس کامیابی سے دو سال ہیں ۔ آپ نے سرکاری سکولوں کا معیار بلند کیا ہے ، پرائیویٹ سکولز بھی بڑا زبردست کام کر رہے ہیں لیکن اگر آپ کے پیسے ہیں تو آپ کو پرائیویٹ تعلیم مل جائے گی ،اصل ٹیلنٹ سرکاری سکول میں آتا ہے ،سرکاری سکول میں معیاری تعلیم دیں۔