کیا عام انتخابات وقت پر ہوں گے؟صدر مملکت کو چیف الیکشن کمشنر کو کیا جواب دیا؟ وقت پر الیکشن ہوئے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ پروگرام’10 تک ‘کے میزبان ریحان طارق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وقت پر الیکشن کرانے کا معاملہ اس وقت صدر اور الیکشن کمیشن کے درمیان تنازع کا سبب بنا ہوا ہے۔صدر مملکت نے عام انتخابات کی تاریخ کے فیصلے کے لیے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو ایک خط لکھا جس میں صدر نے آئین کے آرٹیکل کا سہارا لیا اور کہا کہ 48 (5) کے تحت اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحلیل کی تاریخ کے 90 دن میں تاریخ مقرر کرنے کے پابند ہیں۔صدر نے آئینی طور پر الیکشن کمشنر کو فرائض کے انجام دہی سے متعلق یا دہانی کرائی اور ملاقات کے لیے مدعو کیا لیکن چیف الیکشن کمشنر نے ملاقات کی بجائے آج ایک صدر کو جوابی خط لکھ دیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر نے صدرِ مملکت کو لکھے گئے جوابی خط میں کہا ہے کہ قومی اسمبلی آئین کے آرٹیکل 58 ون کے تحت وزیراعظم کی سفارش پر صدر نے 9 اگست کو تحلیل کی۔ جوابی خط میں کہا گیا ہے کہ اب الیکشن ایکٹ کی سیکشن 57 میں 26 جون کو ترمیم کردی گئی ہے، اس ترمیم سے قبل صدر الیکشن کی تاریخ کے لیے کمیشن سے مشاورت کرتا تھا، اب سیکشن 57 میں ترمیم کے بعد الیکشن کمیشن کو تاریخ یا تاریخیں دینےکا اختیار ہے۔ خط کے مطابق آئین کے آرٹیکل 48 فائیو کو آئین کے آرٹیکل 58 ٹو کے ساتھ پڑھا جائے، وزیراعظم کی سفارش پر اسمبلی تحلیل کی جائے تو کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہے۔اب صورتحال یہ ہے کہ صدر اور چیف الیکشن کمشنر دونوں کے آئین کی مختلف شقوں کا سہارا لیکر ایک دوسرے کو خط اور ضوابی خط تحریر کر رہے ہیں ۔صدر جس آرٹیکل کا سہار لے رہے ہیں اس کے مطابق صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر کسی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے جس کے بعد وہ الیکشن کمیشن پابند ہوتا ہے کہ وہ صدر مملکت کی مشاورت سے الیکشن کی تاریخ یا تاریخون کا تعین کرے ۔لیکن حالیہ الیکشن ایکٹ میں ترامیم کے بعد ایک نئی بحث نے جن لے لیا ۔اس ایکٹ کے ذریعے صدارتی اختیارات ایک ترمیم کے ذریعے الیکشن کمیشن کو منتقل کر دی گئی ۔جو اب ایک تنازعہ کی وجہ بن چکی ہے۔یہاں ایک سوال جو متعدد قانونی اور آئینی ماہرین کے درمیان زیر بحث ہے وہ یہ ہےکہ کیا ایک ایکٹ کے ذریعے دستور کی کسی شق کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔یہ سوال انتہائی اہم ہے۔اگر یہ مان لیا جائے کہ ایسا ہو سکتا ہے تب معاملہ زیادہ پچیدہ ہو جاتا ہے ۔اگر مستقبل میں بھی یہی پریکٹس جاری رہی تو کوئی بھی حکومت کسی بھی آئینی شق کو ایک ایکٹ کے ذریعے تبدیل کرا سکے گی ۔۔چیف الیکشن کمیشنز آج تو الیکشن ایکٹ کا سہارا لے رہے ہیں ۔لیکن یہ ایکٹ 26 جون کو منظور ہوا۔ لیکن پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد بھی صدر نے دو دفعہ چیف الیکشن کمشنر کو خط لکھ کر ملاقات کی دعوت دی تھی ۔تب بھی چیف الیکشن کمشنر نے صدر مملکت سے ملاقات کی بجائے جوابی خطوط کا سہارا لیا جو کہ چیف الیکشن کمشنر کی اختیارات سے تجاوز کرنے کے ذمرے میں آتا تھا۔تب چیف الیکشن کمشنر کسی بھی صورت صدر مملکت کو ایسا عذر پیش نہین کر سکتے تھے جو انہون نے پیش کیے۔اور آج بھی وہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس وقت بھی یہ معاملہ ائینی طور پر حل کرنے کی بجائے عدالتوں میں لے جایا گیا۔اور اب بھی یہی محسوس ہو سکتا ہے کہ سیاستدانوں کو مقررہ مدت میں الیکشن کرانےکے لیے عدالتوں کا ہی سہارا لینا پڑے گا۔ملک کا ایک آئین موجود ہونے کے بعد بھی سیاستدان اگر آئین کو فالو کرنے کی بجائے ہر معاملہ عدالتوں میں لے کر جائیں گے تو ملک کی تباہی نوشتہ دیوار ہے۔اس معاملے میں پہلے ہی سپریم کورٹ بار الیکشن جا چکی ہے۔پیپلز پارٹی کل اپنی مجلس عاملہ کے اجلاس میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بارے میں فیصلہ کرے گی ۔تحریک انصاف بھی عدالت جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مسلم لیگ ن کے علاوہ تقریبا تما جماعتیں ہی مقررہ مدت میں الیکشن کی حامی ہے۔ اسی طرح الیکشن کمیشن جس کا واحد کام بروقت انتخاب کرانا ہے وہ واحد ادارہ ہے کو اپنا آئینی فریضہ انجام دینے کی بجائے حیلے بہانوں کا سہارا لے رہا ہے۔مزید دیکھیں اس ویڈیو میں
کیا عام انتخابات وقت پر ہوں گے؟ وقت پر الیکشن ہوئے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟
Aug 25, 2023 | 09:21:AM
Read more!