موسمیاتی تبدیلیاں جس تیزی سے اپنا اثر دکھا رہی ہیں تو بڑوں سے زیادہ اس معاملے پر اب بچے سنجیدہ نظر آتے ہیں جس کو میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، بہت خوبصورت منظر تھا ملکہ کوہسار مری کی اس حسین وادی کا جب اوپر پہاڑ پر لارنس کالج روڈ پر واقع گلشن گراؤنڈ میں بچے شجرکاری کر رہے تھے،شجرکاری کا یہ بیڑہ پاک آرمی، پلانٹ فار پاکستان اور محکمہ جنگلات پنجاب نے اٹھایا جس میں تمام شہریوں کو دعوت عام دی گئی کہ وہ آکر شجرکاری مہم کا حصہ بنیں تین ہزار سے زائد پودے لگانے میں اپنا کردار نبھائیں، محکمہ جنگلات کا رواں برس مری میں 7 لاکھ پودے اور درخت لگانے کا عزم ہے لیکن خیر اس کار خیر میں بڑوں سے بھی کہیں زیادہ بچوں کی تعداد نے اس مہم میں حصہ لیا، بچوں کی بڑی تعداد میں شرکت سے کم از کم یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ بچے اپنے بڑوں کے غیر سنجیدہ رویوں پر اپنے مستقبل کے لیے فکر مند ہیں بڑی بڑی کنکریٹ سے بھری عمارتوں کے مستقل کے لیے نہیں کہ ہر طرف جدید ترقی یافتہ دور کے مطابق بلڈنگز ہوں بلکہ پاکستان کے سرسبز مستقبل کے لیے فکرمند ہیں۔
میں جب اوپر گلشن گراؤنڈ گئی تو ان بچوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، چند سکول کے چھوٹے بچوں کو میں نے اپنے پاس بلایا، حسنین علی اے پی ایس باڑیاں کے چھوٹے سے شاگرد ،جس کی عمر 8 سے 10سال تک ہوگی اس کی باتوں نے قدرے متاثر کیا، یہ چھوٹا سا بچہ آج جانتا ہے کہ شجرکاری کی اہمیت کیا ہے؟ حسنین علی نے کہا کہ آلودگی بہت بڑھ گئی ہے، آکسیجن کی کمی ہو رہی ہے، ماحولیاتی آلودگی کے باعث سانس لینا مشکل ہے تو ہمارا ماحول تب ہی صاف خوشگوار اور بہتر ہوگا جب ہم اس کا خیال رکھیں گے اپنے حصے کا درخت لگائیں گے شجرکاری کو فروغ دیں گے"، مجھے یہ سن کر خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ اپنے آپ کو سمجھدار باشعور کہلانے والے بھی اکثر ماحول کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنا یہ چھوٹا سا بچہ دے رہا ہے، اکثر بڑے باشعور بنتے پھرتے لوگوں کا درختوں کی ٹہنیاں توڑنا، اپنے مفاد کے لیے درخت کاٹنا ان کا وطیرہ ہوتا ہے لیکن یہ چھوٹا سا بچہ ماحول کو سمجھ رہا ہے یا شاید اس عمر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات سے بخوبی واقف ہے،، کچھ مزید بچوں سے بات کی تو انہوں نے پر زور مطالبہ کیا کہ ہمیں گرین فیوچر یعنی سربز مستقبل چاہیے،، ہمیں الودگی سے بھرا ماحول بدبودار مستقبل نہیں چاہئے۔
ضرورپڑھیں:موٹر سائیکل ہوتی تو میں کوئی اور ہوتی
درخت لگاؤ مہم کے لیے بچے اور بچیوں نے علاقائی لباس بھی زیب تن کیے ہوئے تھے، پاکستان کے چاروں صوبوں کی ثقافت میں ڈھلے بچوں نے پیغام دیا کہ موسمیاتی تبدیلی کسی ایک صوبے کسی ایک مذہب کسی ایک شہر کا مسئلہ نہیں ہے، یہ ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے، اس کا اثر ہر صوبے پر ہر پاکستانی پر ہوگا اس لیے اس ملک کو گلوبل وارمنگ کے مزید اثرات سے بچانے کے لیے علاقائی اور لسانی تعصب سے ہٹ کر ایک ہو کر سوچنا ہوگا مجھے یہ پیغام بے حد پسند آیا،، چلیے پارلیمان میں تمام سیاسی جماعتیں ایک ہو کر سوچیں نہ سوچیں لیکن اس قوم کے بچے بڑے باشعور ہیں، بچے اپنے سروں پر اُڑتے اُڑتے بادلوں کے نیچے ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کے ساتھ شجرکاری مہم میں حصہ لیتے رہے اور پلانٹ فار پاکستان اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے ۔
اس شجرکاری مہم میں کیڈٹ کالج کی لڑکیوں نے بھی بھرپور شرکت کی، کون کہتا ہے کہ کیڈٹ زندگی نہیں جیتے بالکل جیتے ہیں،، پہلی بار شجرکاری مہم پر کیڈٹ لڑکیوں سے ملاقات ہوئی کیونکہ ہمیشہ صرف کیڈٹ لڑکوں کا سنتے تھے خیر تو شجرکاری مہم میں بھرپور حصہ ڈالا ان پاک آرمی کی کیڈٹس نے،، کیڈٹ ہادیہ کی بات بہت خوبصورت لگی کہ صرف اپنے مسکن کو بچانے کی فکر نہیں کرنی چاہیے، درخت کاٹ کر اپنے محلات کو تو خوبصورت بنایا جاتا ہے تاہم جنگلی حیات کی بقاء کا بھی سوچنا چاہیے، جنگلی حیات کے مسکن کی ذمہ داری بھی ہماری یے تو زیادہ سے زیادہ درخت لگا کر جنگلی حیات کے لیے بہترین گھر کا بندوبست کر سکتے ہیں اور اپنے ماحول کو مزید اچھا اور بہترین بنا سکتے ہیں، جنگلی حیات کے جہان کو خوبصورت سرسبز بنانے کے لیے یہ کیڈٹ گرلز بہت محنت کر رہی تھیں۔
اس شجرکاری مہم میں ایک اور جو بہت خوبصورت چیز نظر آئی وہ تھی تمام کمیونیٹیز کا ایک جگہ جمع ہونا، بالکل اسلام آباد ڈی ایچ اے کا منظر یاد آگیا جہاں کچھ دن پہلے مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی سب مذہب سے بالاتر ہوکر پاکستانی کی حیثیت سے ایک میدان میں جمع تھے اور شجرکاری کر رہے تھے، یہاں بھی سکھ برادری کے لوگ سب سے زیادہ بڑی تعداد میں نظر آئے، ہر ایک نے پاکستان کے مستقبل کے لیے اپنا حصہ ضرور ڈالا،، مختلف سکولوں کے طلباء و طالبات نے تو اپنے پودوں کے ساتھ لال ربن باندھ کر اس پر اپنا نام بھی لکھا کہ سرسبز تاریخ میں ہریالی پنوں پر ہری بھری ٹہنیوں اور گھنے جنگلوں میں نام ان کا بھی ہوگا،، بچوں بڑوں کا حوصلہ بڑھانے اور ان کے ساتھ اس مہم میں بھرپور حصہ ڈالنے کے لیے اس مہم کے منتظمین مری کینٹ بورڈ کے سی ای او اور برگیڈیر ذاکر نے بھی شرکت کی،، ہزاروں کی تعداد میں لگائے جانے والے پودوں چنار، چیڑ، دیودار اور روبینیہ کے متعلق اہم معلومات بھی سب کو دی گئیں۔
سیاحتی مقامات باعث کشش ہوتے ہیں اور ملکہ کوہسار مری میں تو ہر وقت سیاحوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے کتنا ہی اچھا ہو کہ انے والے سیاح بے تحاشا کچرا لانے کے بجائے جو کہ یہیں پہاڑوں پر چھوڑ جاتے ہیں یعنی پلاسٹک کی بوتلیں، پلاسٹک ریپرز میں بند چپس اور بسکٹ ان کے بجائے اگر وہ اپنے ساتھ کم از کم ایک ایک پودا لایا کریں اور لگا دیا کریں تاکہ ہمیشہ فضا خوشگوار رہے اور سیاحتی سفر دلکش رپے،، اس قوم کے بچوں کو آنے والی نسل کو پر فضاء الودگی سے پاک سیاحتی مقام ہی ورثے میں دیں،، اپنے حصے کا درخت لگائیں، دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر