انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز میں" پاکستان میں امریکااور چین کے امکانی مشترکہ مفادات " کے موضوع پر  سیمینار

Aug 25, 2024 | 21:44:PM
انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز میں
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24نیوز)انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلیشنز اینڈ میڈیا ریسرچ کے زیر اہتمام " پاکستان میں امریکہ اور چین کے امکانی مشترکہ مفادات اور خارجہ پالیسی " کے موضوع پر  منعقدہ  سیمینار میں مقررین نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان امریکہ یا چین میں سے کسی ایک طاقت کے ساتھ اپنے تعلقات کو کسی دوسرے کی قیمت پر دینے کی بجائے انہیں بہت سے مسائل پر اکٹھا کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے۔

پاکستان میں امریکہ اور چین کے مشترکہ مفادات اور پاکستان کیلئے آگے بڑھنے کا راستہ کے موضوع پر یہ سیمینار بروز اتوار خارجہ امور کے ماہر سید محمد مہدی کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز واشنگٹن کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین، چائنہ رینمن یونیورسٹی کے پروفیسر ژاؤ، پاکستان سٹڈی سنٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امجد مگسی اور ڈاکٹر وحید خان مقررین میں نمایاں تھے۔

ووڈرو ولسن انٹرنیشنل سنٹر فار سکالرز واشنگٹن کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جن کے امریکہ اور چین دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ماضی کی طرح اسلام آباد ماحولیاتی آلودگی کے ذمہ دار دو سب سے بڑے ممالک کے درمیان موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل پر ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

نیز، چین کا طالبان پر خاصا اثرورسوخ ہے جیسا کہ افغانستان میں توانائی کی تلاش کے منصوبوں میں اس کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری سے ظاہر ہے جبکہ پاکستان وہاں اپنا اثرورسوخ کھو چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی اور آئی ایس ای ٹی کی شکل میں افغانستان سے بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے کے پیش نظر چین نہ صرف پاکستان بلکہ خطے اور دنیا کے فائدے کے لئے طالبان پر اپنا اثرورسوخ استعمال کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ اور چین کا تصادم کوئی نئی سرد جنگ جیسی صورتحال نہیں ہے کیونکہ کہیں بھی ایسا نہیں لگتا کہ واشنگٹن بیجنگ کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے جیسا کہ دو متحارب فریقین کے دومیان ہوتا ہے۔ بلکہ موسمیاتی تبدیلی پر امریکی صدر کے خصوصی سفیر جان کیری نے امریکی انتظامیہ کو چین کے ساتھ محاذ آرائی ختم کرنے پر آمادہ کیا تاکہ موسمیاتی تبدیلی پر مل کر کام کرنے کیلئے سازگار ماحول پیدا کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد، موسمیاتی تبدیلی کے بدترین متاثرین میں سے ایک ہونے کے ناطے دونوں ممالک کو اس موضوع پر اکٹھا کرنے میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔

چائنہ رینمن یونیورسٹی کے پروفیسر ژاؤ نے کہا کہ پاکستان کے لئے امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات استوار کرنا نہ صرف ناگزیر اور اہم ہے۔ انہوں نے کہا یہ حقیقت ہے کہ امریکہ پاکستان میں چین کے ساتھ مقابلہ بازی کرتا ہے جس سے اسلام آباد کے لیے مشکل ہو جاتی ہے کہ دونوں ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن کیسے رکھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے چین کے ساتھ تزویراتی تعلقات کو فروغ دینا اہم ہے لیکن اس کے اقتصادی اور سیکورٹی خدشات کو مکمل طور پر حل کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ دلیل دینا معقول معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس اپنی برآمدی منڈی اور ہتھیاروں کی سپلائی کو محفوظ بنانے کے لئے امریکا کے ساتھ اسٹریٹجک تعلقات استوار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے تاکہ وہ کسی حد تک بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکا کی مدد لے سکے۔ حالانکہ ضروری نہیں کہ امریکہ اس سلسلے میں قابل اعتماد ثابت ہو مگر امریکہ پر بھروسہ کرنا پاکستانی سیاست دانوں کی ایک طرح کی عادت معلوم ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے اسٹریٹجک تعلقات کی ترقی کی چین کسی بھی صورت میں مخالفت نہیں کرے گا لیکن اس سے پاک چین تعلقات کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے اور یہ کہ پاکستان کسی دوست ملک سے غیر حقیقی توقعات بھی نہیں رکھنی چاہئے۔

محمد مہدی نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی اہمیت سے نہ تو امریکہ انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی چین۔ پاکستان کا کسی ایک طاقت کے ساتھ کسی بھی دفاعی معاہدے میں شامل ہونا خطے کی دوسری طاقتوں کیلئے موت کی گھنٹی ہے۔

بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے خطرے میں پاکستان کو تنہا چھوڑنا امریکہ اور چین کے لئے کسی مسئلے کا حل نہیں ہے کیونکہ یہ خطرہ دنیا کو نہیں تو کم از کم خطے کو غیر مستحکم کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاک بھارت تنازعہ نہ صرف دونوں ممالک کو نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ عالمی تجارت کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ اگر تنازعہ کشمیر حل ہو جاتا ہے تو اس سے نہ صرف سرحدوں کے دونوں طرف کے لوگوں کو بلکہ پوری دنیا کو انتہائی ضروری ریلیف ملے گا۔ امریکہ کی سرپرستی میں بھارت سے اسرائیل اور یورپ تک تجارتی راہداری بنائی جا رہی ہے جو پاکستانی سمندروں کے سامنے سے گزرے گی اور اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان کشیدگی کی صورت میں یہ ہمیشہ غیر محفوظ رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ چین اور بھارت دونوں کے لئے ایرانی تیل حاصل کرنے کا سب سے مختصر اور سستا راستہ پاکستان سے گزرتا ہے۔ اسی طرح بھارت صرف پاکستان کے ذریعے وسطی ایشیائی منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے مگر چین نے پاکستان میں اس وقت سرمایہ کاری کی جب کوئی ملک اس مقصد کے لئے آگے نہیں آرہا تھا۔ ان کے خیال میں موثر سفارت کاری کے ذریعے دونوں عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ 

ڈاکٹر مگسی نے کہا کہ امریکہ اور چین کے مثبت تعلقات سے سی پیک کے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور ٹیکنالوجی، انفراسٹرکچر اور توانائی جیسے شعبوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ امریکہ اور چین کے ہم آہنگ تعلقات کا مطلب ہے اقتصادی ترقی وعلاقائی استحکام اور جنوبی ایشیاء بالخصوص افغانستان میں پائیدار امن کے لئے مددگار مستحکم ماحول ہے۔ پاکستان اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے میں امریکہ اور چین دونوں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

یونیورسٹی آف سنٹرل ایشیاء کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ ڈاکٹر وحید خان نے کہا کہ سرد جنگ کے دور کی طرح پاکستان چین اور امریکہ کی دشمنی میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ تاہم، انہوں نے مشورہ دیا کہ اسلام آباد کو اپنے جیو اکنامک اور جیو پولیٹیکل مقاصد کو الگ رکھنا چاہئے اور امریکا اور دیگر ممالک کو یہ احساس دلانا چاہئے کہ اس کے جیو اسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل مقاصد محض بھارت اور افغانستان کے ساتھ اس کی سرحدوں تک ہی محدود رہیں گے۔اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ڈاکٹر رضا زیدی نے بھی خطاب کیا۔

دیگر کیٹیگریز: پاکستان
ٹیگز: