سارہ شریف کے بہن بھائیوں کی پاکستان سے برطانیہ واپسی کیلئے درخواست
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)برطانیہ میں مبینہ قتل کی جانے والی 10 سالہ بچی سارہ شریف کے بہن بھائیوں کی کسٹڈی کے معاملے پر برطانیہ اورپاکستان کی عدالتوں میں پیچیدہ قانونی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
جہلم کے علاقہ کڑی جنجیل سے تعلق رکھنے والے ملزم ملک عرفان نے 2009 میں برطانیہ میں پولش خاتون اوگلا سے شادی کی جس سے ایک بیٹی اور بیٹے کی پیدائش ہوئی، سال 2017 میں عرفان نے اوگلا کو طلاق دے دی، طلاق کے بعد سارہ اور اس کے بھائی کو والد کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔
ملک عرفان اپنی دوسری بیوی بینش بتول اور بچوں کے ساتھ سرے کے علاقہ میں شفٹ ہوا جہاں 10گست 2023 کو بچی کے مبینہ قتل کا واقعہ پیش آیا۔
10 سالہ پاکستانی نژاد سارہ شریف برطانیہ کے شہر ووکنگ میں اپنے گھر پرمردہ پائی گئی تھی، تاہم اسی روز پاکستان آجانے والے اس کے والد ، سوتیلی والدہ بینش بتول اور چچا نے سارہ کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
یہ کیس لندن ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے، سارہ کے بہن بھائیوں کو عدالت کا وارڈ بناتے ہوئے عدالت نے انہیں پاکستان سے برطانیہ واپس بھیجنے کاحکم دیا ہے، فیصلے کے بعد سرے کاؤنٹی کونسل نے بچوں کی برطانیہ واپسی کا عمل محفوظ بنانے کیلئے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔
اب اس اوورلیپنگ کیسز ( دو ممالک یا مختلف عدالتوں میں زیرسماعت ایک ہی نوعیت کا مقدمہ) یہ فیصلہ کیا جانا ہے کہ پاکستان میں موجود سارہ کے بہن بھائی کہاں رہیں گے۔
اس حوالے سے رپورٹنگ پر پابندی عائد تھی کیونکہ لندن میں معاملے پر قانونی کارروائی جاری ہے تاہم برطانوی نشریاتی ادارے کی صحافی لوئیس ٹِکل اور ہننا سمرز اور پی اے میڈیا کی درخواست کے بعد اس پابندی کو ہٹا دیا گیا ہے۔
میڈیا تنظیموں کی جانب سے کیس سے متعلق رپورٹ کرنے کی عدالتی اجازت کے بعد اب معاملے کے متعلق اطلاع دی جا سکتی ہے۔
سارہ کے والد اور سوتیلی والدہ روپوشی
برطانوی پولیس کو سارہ کی موت کے حوالے سے 41 سالہ والد نے فون کیا تھا جو اپنی 29 سالہ اہلیہ بینش بتول اور اپنے 28 سالہ بھائی فیصل مالی کے ساتھ برطانیہ میں پوچھ گچھ کرنے سے پہلے اسلام آباد پہنچ چکے تھے،یہ فون اسلام آباد پہنچنے کے بعد رات 2 بج کر 50 منٹ پر کیا گیا تھا جہاں ایک سے 13 سال کی عمر کے پانچ بچے ان کے ہمراہ تھے، سارہ 6بہن بھائیوں میں سے ایک تھی۔
تاہم ستمبر کے دوسرے ہفتے میں بینش بتول نے اپنے شوہرعرفان شریف کے ساتھ ایک ویڈیو شیئرکرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ سارہ کی موت معمول کا واقعہ تھا۔ بینش کے مطابق پاکستان میں ہماری فیملی کو ہراساں کیا جارہا ہے، ہم اس لیے چھپے ہوئے ہیں کہ پولیس یا تشدد کرے گی یا پھر ہمیں ماردے گی،سوتیلی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ وہ قتل کی تحقیقات میں برطانوی اتھارٹیز سے بھی تعاون کرنے کےلیے تیارہیں۔
سارہ کی برطانیہ واپسی اورگرفتاری
اب سارہ کی والدہ، سوتیلی والدہ اور چچا پاکستان میں روپوشی کے بعد برطانیہ پہنچے جہاں انھیں گرفتار کر لیا گیا،اُن پر سارہ کے قتل، بچی کی موت کا سبب بننے یا اس کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن تینوں نے جرم کے ارتکاب سے انکار کیا ہے۔
پانچ ہفتوں تک یہ بات معمہ بنی رہی کہ آخر یہ خاندان کہاں ہے،پھر پاکستان پولیس نے بچوں کے دادا محمد شریف کے گھر پر چھاپہ مارکربچوں کو ڈھونڈ نکالا جو پاکستان واپسی کے بعد سے دادا کے پاس مقیم تھے۔جہلم پولیس نے عرفان شریف کے پانچ بچوں کو تحویل میں لیکرمنگل 12 ستمبر کوعدالت میں پیش کیا تھا۔سنئیر سول جج کے حکم پر بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو لاہوربھیجا گیا۔
تاہم بچوں کے دادا نے پاکستان کی عدالتوں کے ذریعے ان کی مکمل تحویل کے لیے لڑنا شروع کیا۔ 19 اکتوبر کو سرے کنٹری کونسل نے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل کی کہ انہیں ایک سے 13 سال کی عمر کے سارہ کے بہن بھائیوں کو برطانیہ واپس لانے کی اجازت دی جائے۔
چیمبر میں تمام فریقین سے بات کرنے کے بعد جج نے بچوں کو ان کے دادا کی عبوری تحویل میں دے دیا، تب سے اب تک دادا کی تحویل میں ہیں۔