جسٹس(ر)ثاقب نثار کا دہرا معیار انصاف؟
Stay tuned with 24 News HD Android App
(ویب ڈیسک)غلط عدالتی فیصلہ ،70ججز کو حکومتی خزانےسے 4 ارب روپے ادا کر دیئے گئے،کوئی پوچھنے والا نہیں ، پہرے دار ہی ’’چلیں چھوڑیں ‘‘کی روش پر گامزن نکلا ،جس کے بعد انداز ہ ہوتا ہے کہ یہ جو پاکستان کا حال ا س نہج تک پہنچا ہے اس کے ذمہ دار سیاستدان اور بیوروکریٹ ہی نہیں بلکہ ہر ادارے نے اپنے تیں پوری کوشش کی ہے اس ملک کو لوٹنے کی۔
تفصیلات کے مطابق صحافی فخر درانی نے اپنے وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ 2008 میں 1970 سے لیکر اس وقت تک ریٹائرڈ ہونے والے70 ججز نے سندھ ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی کہ ان کی پینشن لگائی جائے ، جس پر سندھ ہائیکورٹ نے اپنے پیٹی بھائیوں کی فریاد پر آمین کہتے ہوئے فیصلہ دیا اور سندھ حکومت کو احکامات جاری کیئے کہ ان 70 بزرگ ججز کی پینشن لگائی جائے ، نہ صرف آئندہ کیلئے پینشن لگائی جائے بلکہ سابق اخراجات بھی ادا کیے جائیں ، جو کہ تقریباً اس وقت کے ایک ارب 64 کروڑ روپے بنتے تھے اس رقم کو آج ڈالر کی قیمت کے حساب سے موازنہ کریں تو یہ 6 ارب 9 کروڑ 95 لاکھ سے زائد بنتے ہیں ۔
لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ان ججز صاحبان کو پینشن لینے کیلئے عدالت سے ہی کیوں فریاد کرنا پڑی؟
اس کا جواب یہ کہ یہ تمام 70ججز صاحبان کا سندھ ہائیکورٹ میں تعینات رہنے کا عرصہ 5 سال سے کم تھا ،آئینی اور قانونی طور پر ہائیکورٹ میں 5 سال سے کم عرصہ تک تعینات رہنے والے ججز صاحبان کی پینشن نہیں لگائی جاتی ، لیکن سندھ ہائیکورٹ نے اپنے پیٹی بھائیوں کو نوازنے کیلئے عوامی پیسے کا بے دریغ استعمال کیا اور حکم صادر فرمایا کہ سندھ حکومت ان ججز کو یہ رقم ادا کرے اور آئندہ کیلئے ماہانہ پینشن بھی لگائی جائے جو تقریباً سالانہ 40 کروڑ روپے بنتی تھی۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ ان ججز میں سے بہت سے ایسے صاحبان بھی تھے جنہوں نے 15 ماہ سے بھی کم عرصہ ہائیکور ٹ میں ذمہ داری سر انجام دی تھی ، ان کو بھی تمام سہولیات مہیا کی گئیں جو عوامی پیسے کا بے دریغ استعمال سے ہی ممکن ہو پایا، لیکن اس رپورٹ کی دلچسپ کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے ، صحافی کے مطابق سندھ حکومت نے اس پٹیشن کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اس وقت کے پی سی اوججز3 ممبرز کا ایک گروپ بنایا گیا ، جس کے سربراہ جسٹس نواز عباسی صاحب تھے اس 3رکنی بینچ نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو قائم رکھا اور حکومت کو کہا گیا کہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے پر من و عن عمل کیا جائے ۔
لیکن اللہ اللہ کرتے بالآخر 5 سال بعد 2013 میں سپریم کورٹ نے اس کیس کو دوبارہ سے ٹیک اپ کیا اور جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ایک 5رکنی بینچ بنا دیا گیا جس میں جسٹس میاں ثاقب نثار بھی شامل تھے ان دونوں کے علاوہ ، جسٹس اعجاز افضل خان جو کہ پانامہ کیس کا فیصلہ سنانے والے بینچ کا بھی حصہ تھے، جسٹس محمد اطہر سعید اور جسٹس اقبال حمید الرحمان شامل تھے یہ کیس مارچ 2013 میں سنا گیا اور بینچ نے2008میں دی گئی سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کی ججمنٹ کو غیر قانونی قرار دیا اور فیصلہ جاری کیا کہ ان کو مستقبل میں پینشن نہ دی جائے ، قانون کی رو سے 5سال سے کم سروس والے ججز کو پینشن ادا نہ کرنے کا حکم ہے ، لیکن حیران کن طور پر سیاستدانوں اور بیورو کریٹ سے پیسے نکلوانے والے ججز صاحبان نے اپنے پیٹی بھائیوں کو بزرگ شہری اور بیچارہ کہتے ہوئے اس قابل نہ سمجھا کہ ان کو ماورائے قانون دیئے گئے پیسے ان سے واپس وصول کیے جائیں ۔
کہانی کا اختتام اس طرح سے نہیں ہوا بلکہ اس میں مزید ٹویسٹ اس طرح سے ہے کہ اسی بینچ کے 2 افرادجسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس اعجاز افضل نے 2مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ 2012 میں ایک فیصلہ دیا گیا جس میں ایم این ایز، ایم پی ایز اور سینیٹرز کو 63 ون سی کے تحت نااہل کیا گیا اور ساتھ میں ممبرز آف پارلیمنٹرین سے تمام تنخواہیں اور مراعات واپس کرنے کا حکم دیاگیا ، اسی طرح سپریم کورٹ نے چیئرمین اوگرا کی تعیناتی کو غیر قانونی قرار دیا اور ساتھ میں فیصلے میں کہا کہ بطور چیئرمین تنخواہیں اور دیگر مراعات واپس کی جائیں، دونوں ججز صاحبا ن نے اپنی رائے میں کہا کہ 2008 میں دیا گیا سندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ غلط ہے اور ان تمام 70 ججز صاحبان کو دیئے گئے پیسے واپس وصول کیے جائیں ۔
ضرور پڑھیں :پی ٹی آئی کی ”جیل بھرو تحریک “،سوشل میڈیا پر میمز کا طوفان اُمڈ آیا
لیکن افسوس سد افسوس بعد میں چیف جسٹس آف پاکستان بننے والے جسٹس ثاقب نثار جو الاعلان کہتے تھے کہ وہ قوم کے ایک ایک روپے کے پاسبان ہیں انہوں نے ہی اپنے ساتھی دوستوں سے اختلاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان 70 ججز سے رقم واپس نہ لی جائے کیونکہ اب 5 سال گزر چکے ہیں کچھ ججز صاحبان اب وفات پا چکے ہیں ان کی بیوہ یا لواحقین یہ پیسا کیسے واپس کریں گے ؟ اور جو حیات ہیں انہوں نے یہ پیسے خرچ کر لیے ہوں گے اب وہ واپس نہیں کر پائیں گے اس لیے ان سے پیس واپس نہ لیے جائیں ۔
صحافی نے انکشاف کیا کہ جب اس بابت انہوں نے جسٹس ثاقب نثار سے رابطہ کیا اور ان سے پہلا سوال کیا کہ آپ کا دوہرا معیار کیوں ہے ، جب کسی مقدمے میں کوئی بیورو کریٹ ہو یاپھر کوئی سویلین ہو تو اس میں تو آپ کا معیار پبلک پیسے کے لحاظ بہت مختلف ہوتا ہے ، میں نے انہیں انہی کا فیصلہ جو انہو ں نے عطاالحق قاسمی صاحب کے حوالے سے سنایاتھا کہ عطاالحق قاسمی سے بطور ایم ڈی پی ٹی وی لیے جانے والے تمام مراعات اور تنخواہ کے پیسے وصول کیے جائیں جس پر جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ان 70ججز نے کوئی فراڈ یا دھوکا دہی کے ذریعے یہ پیسے وصول نہیں کیے تھے بلکہ یہ ایک غلط عدالتی فیصلے کے تحت انہیں ملا تھا جبکہ عطاالحق قاسمی کی تعیناتی قانون کے مطابق نہیں تھی۔