یہ’شادی‘نہیں چلے گی ؟

Feb 25, 2024 | 11:30:AM

Azhar Thiraj

ارینج میرج بھی کمال چیز ہوتی ہے جس میں رشتہ والدین تلاش اور فائنل کرتے ہیں۔ جہیز میں کیا دینا کیا لینا ہے، کھانا کیا پکے گا، قاضی کون ہوگا، بارات کیسے اور کتنے بجے آئے گی، نکاح کب ہو گا، مہر کتنا طے ہو گا، لڑکی کا سر پکڑ کر تین بار کون ہلائے گا اور ’قبول ہے، قبول ہے‘ کہتے ہوئے ہوا میں چھوارے کون اچھالے گا؟ یہ سب دلہن کے بڑے ہی طے کرتے ہیں۔ لڑکے اور لڑکی کو صرف دولھا دلہن کا کردار نبھانا ہوتا ہے۔ لڑکی رشتے سے انکار کرنے کا سوچے بھی تو اسے طرح طرح سے دھمکایا جاتا ہے۔

 پاکستانی معاشرے میں یہ عام رواج ہے۔ کبھی غلطی سے عوام ’لو میرج‘ کر بھی بیٹھے تو سازشی اسے بہت جلد تڑوا دیتے ہیں۔8 فروری کے الیکشن کے بعد ایک اور ’ارینج میرج‘ کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔پنڈال کے سجنے کا دن قریب لیکن جہیز،حق مہر اور دیگر شرائط پہلے ہی طے ہوچکی ہیں،2022 میں ہونیوالی ارینج میرج کے نکاح خواں اس شادی سے خفا خفا ہیں اور کہتے ہیں کہ’ تیر اور شیر کے درمیان یہ شادی بالجبر ہے اور  تیسری قوت نے زبردستی کروائی ہے‘۔

ضرورپڑھیں:ن لیگ نے وزیراعلیٰ کا ایک اور امیدوار لانے کا اعلان کردیا

ن لیگ نے پیپلزپارٹی کی شرائط قبول کرتے ہوئے حکومت سازی کا بڑا مرحلہ طے کرلیا تاہم بڑے بھائی کے انکار پر چھوٹے کو بددلی سے اس شادی کا لڈو کھانا پڑ رہا ہے ۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ حال ہی میں بننے والے چھ جماعتی اتحاد کو اگلی حکومت کی تشکیل کے لیے آنے والی قومی اسمبلی میں 207 ارکان کی واضح اکثریت حاصل ہوگی۔اس اتحاد میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز  پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ، استحکام پاکستان پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ قائد (پی ایم ایل کیو) اور بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) شامل ہیں۔اس اتحاد کو قومی اسمبلی کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے آئینی عہدے بھی آسانی سے مل جائیں گے۔ اتحاد کی اجتماعی طاقت قومی اسمبلی میں واضح اکثریت بناتی ہے، لیکن دو تہائی اکثریت سے کم ہے جسے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں تقریباً 224 ایم این ایز کی حمایت درکار ہے۔

336 ارکان کے ایوان میں حکومت سازی کے لیے 169 ووٹ جادوئی نمبر ہیں اور دو تہائی اکثریت کے لیے 224 کے قریب ووٹ درکار ہیں۔ خواتین کے لیے 20 اور اقلیتوں کے لیے چار مخصوص نشستیں شامل کرنے کے بعد مسلم لیگ نون 108 راکین کے ساتھ سب سے بڑی پارلیمانی پارٹی بن کر ابھری ہے۔پی ایم ایل این نے قومی اسمبلی کے لیے 75 ارکان منتخب کروائے اور 9 آزاد ارکان کے شامل ہونے کے بعد ان کی تعداد 84 ہوگئی۔ خواتین کے لیے 20 اور اقلیتوں کے لیے چار مخصوص نشستیں مختص کرنے کے بعد، اس کی کل تعداد ایوان میں 108 تک پہنچ گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کے 54 منتخب اراکین ہیں اور خواتین کے لیے 12 اور اقلیتوں کے لیے دو مخصوص نشستوں کے اضافے کے بعد قومی اسمبلی میں اس کے ارکان کی کل تعداد 68 ہو گئی ہے۔ پی ایم ایل این اور پی پی پی کے ایم این ایز کی کل تعداد 169 بنتی ہے، جو حکومت بنانے کے لیے درکار ہے کیونکہ دونوں جماعتوں کے ارکان کی کل تعداد 168 ہے۔ایم کیو ایم پی نے عام انتخابات میں اپنے 17 اراکین منتخب کروائے اور خواتین کے لیے چار اور اقلیتوں کے لیے ایک مخصوص نشستوں کے اضافے سے قومی اسمبلی میں اس کے ارکان کی کل تعداد 22 ہو گئی۔ پی ایم ایل کیو کے تین ارکان منتخب ہوئے اور ایک آزاد نے اس میں شمولیت اختیار کی اور خواتین کی ایک مخصوص نشست کے اضافے سے قومی اسمبلی میں اس کی تعداد پانچ ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں:یہ گاڑی کیسے چلے گی؟

آئی پی پی نے اپنے تین ممبران قومی اسمبلی منتخب کرائے ہیں۔ عام انتخابات 2024 میں منتخب ہونے والے 99 آزاد امیدواروں میں سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 81 سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو گئے ہیں جب کہ آٹھ آزاد امیدواروں نے کسی جماعت میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور قومی اسمبلی میں آزاد امیدواروں کا درجہ حاصل کر لیا۔جمعیت علمائے اسلام فضل (جے یو آئی ایف) کے چھ ارکان منتخب ہوئے اور انہیں خواتین کے لیے دو مخصوص نشستیں الاٹ کی گئیں، جس سے قومی اسمبلی میں اس کی کل تعداد آٹھ ہوگئی۔مجلس وحدت مسلمین پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی)، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ ضیاء سمیت دیگر جماعتوں کو قومی اسمبلی میں ایک ایک نشست ملی۔

مسلم لیگ ن کسی طریقے بڑی پارلیمانی پارٹی تو بن گئی  لیکن ’باؤجی‘کا چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کا تاج پہننا خواب رہ گیا ،زور زبر دستی سے جو ’ارینج میرج‘کروائی جارہی ہے ابھی سے اس بندھن پر سوال اٹھنا شروع ہوگئے ہیں ۔بدخواہ کہتے ہیں کہ یہ’شادی‘نہیں چلے گی۔پوری قوم کیلئے یہی سوال ہے کہ کیا یہ زور زبردستی کی اور کمزور رشتے پر قائم’شادی‘ چلے گی ؟

ضروری نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر 

مزیدخبریں