(24 نیوز)ملک میں الیکشن کا سماں بندھ گیا ہے لیکن کوئی بھی تاحال درست انتخابی نتائج کی پیش گوئی کرنے کے قابل نہیں ۔بڑے سے بڑے تجزیہ کار بھی ہر روز بدلتی صورتحال سے پریشان ہیں ۔اور اب جب 3 ہزار سے زائد امیدوار میدان میں ہے تو الیکشن کے بعد حکومت بننے تک یہ اندازہ لگانا کہ کس جماعت کا پلڑا سب سے بھاری ہوگا اس کی پیش گوئی تقریبا نا ممکن ہو چکی ہے۔عام انتخابات کے بعد کس کی حکومت بنے گی؟مسلم لیگ ن یا پھر پیپلز پارٹی؟ دونوں جماعتیں نہیں تو کیا آزاد ایم این ایز اور ایم پی ایز حکومتیں بنائیں گے؟
خدشہ ہے کہ اس بار کے الیکشن 1985 کے الیکشن کی طرح ہونے والے ہیں جہاں آزاد امیدواروں کی بہتات تھی یہاں ایک بات اور بڑے وثوق سے کی جا سکتی ہے کہ اصل امتحان الیکشن رزلٹ اناؤنس ہونے کے تین دن بعد تک لگےگا جس وقت آزاد امیدوار کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے تمام جماعتیں متحرک اور ایک سے بڑھ کر ایک آفرز کرا رہی ہو نگی ۔ اب تک جو اعدادو شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق 1985ء میں قومی اسمبلی کے انتخابات میں 1088آزاد امیدار تھے جبکہ 2024ء کے انتخابات میں 3248آزادامیدوار آمنے سامنے ہیں۔جس سے لگتا ہے کہ پارٹیاں پیچھے رہ گئی ہیں اور آزاد امیدواروں کا میلہ لگ رہا ہے۔
شروع میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ 1985 کے انتخابات نے ملکی سیاسی صورتحال میں بگاڑ پیدا کیا جس کے بعد آزاد افراد کے تجربے سے رفتہ رفتہ بیک آؤٹ کیا گیا لیکن 2024ء کے انتخابات سے لگ رہا ہے کہ وہی غیر جماعتی اور آزاد امیدواروں کا کلچر بحال ہو جائیگا ۔یہ لوگ نہ جماعتی ڈسپلن کے پابند ہونگے نہ ہی ان کے کوئی نظریات ہوں گے ۔یہ ترقیاتی فنڈز کیلئے ہر سیاسی اور اخلاقی اصول پامال کرنے کو تیار ہونگے۔اور یہ اسی حکمت عملی کا شاخسانہ ہے جو ہر روز بدل رہی ہے۔ اور کسی بھی سیاسی تجزیہ کار کی سمجھ سے باہر ہے۔
ضرور پڑھیں:سوشل میڈیا یا شیطانی میڈیا؟ن لیگ،پیپلزپارٹی فارغ؟حکومت آزادامیدواروں کی ہوگی،اہم انکشاف
سینئر صحافی اور معتبر تجزیہ کار سہیل وڑائچ جن کو انتخابی سیاست کے تجزیہ پر عبور حاصل ہے۔وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اس بار کے الیکشن کے تمام تر محرکات مختلف ہیں ۔ ان کے مطابق یہ صورتحال، جو پیدا ہوتی نظر آ رہی ہے اس کے پیچھے ہماری ریاست کی نت نئی بدلتی حکمت عملی ہے۔جب نواز شریف نے لندن سے آنا تھا تو ریاستی حکمت عملی یہ نظر آ رہی تھی کہ سارا اقتدار و اختیار باؤ جی کی جھولی میں ڈال دینا ہے، کہا گیا کہ سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کو اقتدار نہیں دینا۔ کچھ ہفتوں بعد سوچ میں پھر تبدیلی آئی، پیپلزپارٹی کو سندھ میں دبانے کی حکمت عملی بدل گئی اور کہا جانے لگا کہ سپلٹ مینڈیٹ آئے گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر آصف زرداری بنیں گے۔
اندازہ یہ لگایا گیا کہ 70 سے 80 نشستیں ن لیگ لے گی اور 50 سے 60 نشستیں پیپلزپارٹی لے گی یوں ان کی مخلوط حکومت بنائی جائے گی پھر یکایک نئی حکمت عملی سامنے آئی کہ تحریک انصاف کو آزادانہ موقع ملا تو وہ انتخابات سویپ کر جائے گی اس لئے انتخابات کو ملتوی کروایا جائے، اس کوشش کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کامیاب نہ ہونے دیا۔ تحریک انصاف سے بلے کا نشان واپس لیا گیا تو پھر سے حکمت عملی میں تبدیلی نظر آنا شروع ہو گئی، اب دوبارہ سے جہانگیر ترین اور علیم خان کی آئی پی پی کی اہمیت بڑھ گئی ہے، پہلے صرف نون اور بائو جی کو سب کچھ دینے کی بات ہو رہی تھی، اب کہا جا رہا ہے کہ طاقت کا توازن آزاد امیدواروں کے حق میں آ رہا ہے،سہیل وڑائچ کے مطابق تازہ ترین تبدیلی جو حکمت عملی میں آ رہی ہے یہ کہ الیکشن کے قریب سب کو فری ہینڈ دیا جائے کیونکہ اب سوچ یہ ہے کہ نون کو بھی اتنا طاقتور نہیں کرنا کہ وہ کل کو ریاست کے خلاف کھڑی ہوسکے۔
سہیل وڑائچ اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں جس کا عندیہ بہت پہلے سے ہی سیاستدان دے رہے ہیں ۔یعنی الیکشن کے بعد کوئی آزاد امیدواروں کے سر پر حکومت بنانا چاہتا ہے تو کسی کویہ خدشہ ہے کہ انتخابات کے بعد سیاست دانوں کی خریدو فروخت کے لیے ایک بھرپور منڈی لگی گے اور اس منڈی سے بننے والی حکومت کی معیاد بھی کچھ زیادہ نہیں ہو گی ۔