پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات میں اپنے ہی ممبران کو لاعلم رکھا، سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ جاری

Jan 25, 2024 | 17:55:PM

(امانت کشگوری)تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنے ہی ممبران کو لاعلم رکھا،سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو بلے کا انتخابی نشان دینے سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا،38 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے،تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات میں اپنے ہی ممبران کو لاعلم رکھا،قانون کے مطابق پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان نہیں دیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ کاکہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو متعدد شوکاز نوٹس جاری کئے،شوکاز نوٹسز کے باوجود پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے،الیکشن ایکٹ کے مطابق الیکشن کمیشن سیاسی جماعت سے انتخابی نشان واپس لے سکتا ہے،انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے پر انتخابی نشان واپس لیا جاسکتا ہے،انٹرا پارٹی الیکشن جیت کر آنے والوں کو یہ اختیار ملتا ہے کہ وہ پارٹی امور چلائیں۔
عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت میں الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے ایک سال کا وقت دیا،جب پی ٹی آئی کو انٹرا پارٹی الیکشن کیلئے ایک سال کا وقت ملا اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے،اس وقت پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی تحریک انصاف کی حکومتیں تھیں،پشاور ہائیکورٹ نے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو صرف سرٹیفکیٹ کے اجرا تک محدود کیا،ہائیکورٹ نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 209 ایک کو نظر انداز کیا،الیکشن ایکٹ کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کے بعد سرٹیفکیٹ کا معاملہ آتا ہے،برطانیہ میں انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کوئی مخصوص قانون موجود نہیں،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ برطانیہ میں سیاسی جماعتیں پارٹی الیکشن نہیں کراتیں، 2022 میں بورس جانسن وزارت عظمیٰ سے دستبردار ہوئے لیکن اپنا جانشین مقرر نہیں کیا،الزبتھ ٹرس نے رشی سوناک کو شکست دےکر وزیراعظم منتخب ہوئیں،الزبتھ ٹرس کے استعفیٰ کے بعد رشی سوناک بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔
سپریم کورٹ کا مزید کہناتھا کہ انٹرا پارٹی انتخابات میں ووٹ کا حق بھی عام انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق جیسا ہی ہے، امریکی سپریم کورٹ نے اپنے متعدد فیصلوں میں انٹرا پارٹی انتخابات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا،تحریک انصاف کی درخواست پر ہی لاہور ہائیکورٹ نے پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا، سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ میں ابھی تک یہ معاملہ زیر التوا ہے، بیرسٹر گوہر نے خود کو چیئرمین پی ٹی آئی نامزد کیا لیکن انکی نامزدگی کا اصل طریقہ کار واضح نہیں، کوئی بھی فریق ایک کیس دو مختلف عدالتوں میں نہیں لے جاسکتا ۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ضابطہ دیوانی کا سیکشن 10 ایک معاملہ دو مختلف عدالتوں میں لے کر جانے کی ممانعت کرتا ہے،اگر ایک کیس ایک عدالت میں ہو تو دوسری عدالت اس کیس پر کارروائی جاری نہیں رکھ سکتی،اگر ایک فریق ایک ہی معاملہ دو مختلف ہائیکورٹس میں لے کر جائے تو یہ عدلیہ کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے،واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص بلا مقابلہ آئے تو وہ منتخب تصور ہوتا ہے، انٹراپارٹی انتخابات نہ ہونے کی صورت میں پی ٹی آئی کے اہم عہدوں پر براجمان افراد پر سوالات اٹھتے ہیں، اگر ہر کوئی بلامقاملہ منتخب ہو اور انتخابات کا کوئی ثبوت بھی نہ ہو تو یہ ایک الگ معاملہ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمر ایوب خود کو بغیر دستاویزی ثبوت پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل جیسا اہم عہدیدار کہتے ہیں،گوہر علی خان اپنے آپ کو پی ٹی آئی کاچیئرمین کہتے ہیں مگر ان کے پاس کوئی ٹھوس دستاویزی ریکارڈ نہیں،گوہر علی خان نے خود کو عمران خان نیازی کی جگہ پی ٹی آئی کا چیئرمین ظاہر کیا۔

یہ بھی پڑھیں: گلوکار بلال سعید نے طلبا کو مائیک دے مارا وجہ کیا بنی؟ مشہور نعرہ بھی  لگ گیا

مزیدخبریں