(ویب ڈیسک ) وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کیخلاف درخواست پر سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے اورا س دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ روسٹرم پر آگئے جس پر فاضل عدالت نے انہیں بیٹھنے کی ہدایت کردی، عدالت نے منصور اعوان کو وزیر قانون سے ہدایات لینے سے روک دیا اورچیف جسٹس عمر عطا بندیال منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں۔
تصیلات کے مطابق دوران سماعت اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اہم ہدایات ملی ہیں ان سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ہدایات سے آگاہ اپنے وکیل کو کریں، برطانیہ میں تمام اختیارات پارلیمانی پارٹی کے ہوتے ہیں، برطانیہ میں پارلیمان کے اندر پارٹی سربراہ کا کوئی کردار نہیں ہوتا، آئین واضح ہے کہ ارکان کو ہدایت پارلیمانی پارٹی دے گی۔
جسٹس اعجازالاحسن سوال کیا کہ آپ کا مؤقف ہے کہ ڈپٹی سپیکر کی تشریح درست ہے؟ اگر عدالتی فیصلہ غلط ہے تو ووٹ مسترد بھی نہیں ہوسکتے۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا ووٹنگ سے پہلے چوہدری شجاعت کا خط ایوان میں پڑھا گیا تھا؟جس پر وکیل منصور اعوان نے کہا کہ اس حوالے سے میرے پاس معلومات نہیں ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق خط ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا حصہ تھا، کیا ڈپٹی سپیکرکوچودھری شجاعت کا خط اجلاس کے دوران موصول ہوا؟ حمزہ کے وکیل نے بتایا کہ میڈیا پر رپورٹ ہوچکا تھا کہ چوہدری شجاعت نے خط اجلاس سے پہلے ڈپٹی سپیکرکو بھیجا تھا۔
وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے کہا کہ منصور اعوان نوجوان وکیل ہیں، ان کے کندھوں پر بہت بوجھ ہے، تمام پارٹی اراکین کو چوہدری شجاعت کا خط اجلاس سے پہلے مل گیا تھا۔عدالت نے منصور اعوان کو وزیر قانون سے ہدایات لینے سے روک دیا اورچیف جسٹس عمر عطا بندیال منصور اعوان بہت بہترین دلائل دے رہے ہیں۔
جسٹس منیب نے سوال کیا کہ آپ وزیر اعلیٰ پنجاب کے وکیل ہیں، وفاقی وزیر قانون سے کیسے ہدایات لےسکتےہیں؟چیف جسٹس نے منصور اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سوالات سے پریشان نہ ہوں، دلائل جاری رکھیں۔