بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار۔جس جج پر اعتراض ہے اس کا نام لیں: عمرعطابندیال
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24 نیوز) چیف جسٹس عمر عطابندیال کا کہنا ہے کہ سخت زبان استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ بنچ تشکیل دینا اور کیس کس بنچ میں لگانا ہے یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے۔عدلیہ اور ججز پر انگلیاں اٹھانا بند کریں۔ جس بندے پر اعتراض ہے اس کا نام لیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کا فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ جسٹس قاضی امین نے فوجداری مقدمات میں تاریخی فیصلے دئیے۔ جسٹس قاضی امین گواہان کے تحفظ کی ریاستی ذمہ داری کو فیصلوں میں اجاگر کیا ۔
انہوں نے کبھی تکنیکی نکات کو انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا ۔خواتین کے حقوق کیلئے بھی تاریخی فیصلے دئیے۔ انشاءاللہ عدالت اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی ۔
چیف جسٹس نے مزید کہا فروری اور مارچ میں سپریم کورٹ چار ہزار مقدمات کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ سپریم کورٹ میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد میں ایک ہزار تک کمی آئی ہے ۔بار بار التواء لینے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے ۔ساتھی ججز اور وکلاء کا زیرالتواء مقدمات نمٹانے میں کردار پر مشکور ہوں۔چیف جسٹس نے مزید کہا وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اور صدر سپریم کورٹ بار نے ججز پر الزام لگایا۔ ججز اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار پر انگلیاں نہ اٹھائی جائیں۔ سخت زبان استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل الزامات نہ لگائیں۔
عمر عطا بندیال نے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل کا ججز کو تنخواہ دار ملازم کہنا انتہائی نامناسب ہے۔ جس کو بھی کوئی مسئلہ ہے میرے پاس آئے میرے دروازے سب کیلئے کھلے ہیں۔ بنچ تشکیل دینا اور کیس کس بنچ میں لگانا ہے یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے۔عدلیہ اور ججز پر انگلیاں اٹھانا بند کریں۔ جس بندے پر اعتراض ہے اس کا نام لیں۔جس شخص سے مسئلہ ہو آکر مجھے بتائیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زیر التوا مقدمات ختم کرنے کیلئے محنت کر رہے ہیں۔ وکلاء کی مدد سے فرروی اور مارچ کے دوران چار ہزار مقدمات نمٹائے گئے۔ رات 9 بجے تک سپریم کورٹ میں موجود ہوتا ہوں۔عام طور پر سخت الفاظ استعمال نہیں کرتا۔انہوں نے کہا ججز تقرر کیلئے سب سے اہم ان کی دیانتداری، اہلیت، اور قابلیت ہے۔ججز رولز کمیٹی میں میرے برابر جج نے طریقہ کار پر اتفاق رائے کیا۔ جج کا تحمل اور اس کی ہر قسم کے اندرونی یا بیرونی دباو سے آزادی اہم ہے۔ اگر آپ براہ راست مجھ سے آکر بات نہیں کر سکتے تو آپ محض اخباروں کی زینت بننا چاہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل حفیظ الرحمان چودھری دیہاتی آدمی ہیں۔ میں بھی ایک دیہاتی آدمی ہوں ۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے گھر کی بات گھر تک رکھنے کی بات کی۔ ہم لوگ تو برادری کی بات باہر نہیں کرتے گھر کی بات گھر تک رہنی چاہیے۔ بنچز کی تشکیل پر اعتراض کرنے والے بتائیں کہ گزشتہ 15 سے 20 سال کے دوران کیسے بنچ تشکیل دیئے گئے۔
عمر عطا بندیال نے صدر سپریم کورٹ بار کو مخاطب کرکے کہا احسن بھون صاحب آپ کو کون سی عدالتی پریکٹس پر اعتراض ہے۔میرے دروازے آپکے لئے رات 9 بجے بھی کھلے ہیں۔ ہم یہاں اہلیت،قابلیت،دیانتداری کی وجہ سے ہیں۔ ہماری تقرری غیرجانبدار انہ ہوتی ہے۔ہم بنا کسی دباؤ سے کام کرنے والے لوگ ہیں۔ میرے رجسٹرار کو گالیاں دینا بند کریں۔ میرے رجسٹرار کا 20 سالہ تعلیمی تجربہ ہے ۔رجسٹرار سپریم کورٹ بہترین افسران میں سے ایک ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ ذمہ داری کیسے ادا کرنی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کپل شرما شو ایک بارپھر بند۔ وجہ کیا بنی؟
چیف جسٹس نے مزید کہا وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل ملک بھر کے وکلا کا نمائندہ ہوتا ہے۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل اپنے عہدے اور منصب کا خیال رکھیں۔ چند روز بعد میں چلا جاؤں گا۔حق اور سچ کے مطابق ذمہ داری ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:موسم کے حوالے سے اہم خبر