مریم راج ، شیطان قید پولیس آزاد
عامر رضا خان
Stay tuned with 24 News HD Android App
ہماری پولیس جرات مندی کی ایسی بے مثال فورس ہے جو بندوں سے تو کیا اب توبہ نعوذباللہ خدا سے بھی نہیں ڈرتی، جملہ زیادہ سخت معلوم ہوتا ہے لیکن کیا کروں جس دل میں خوف خدا نا ہو اور وہ بھی ماہ مقدس رمضان میں تو اس کا صاف صاف مطلب تو یہی ہے کہ پولیس کے دل میں خدا کا خوف بھی نہیں رہا، یہاں اس بلاگ میں جہاں جہاں میں پولیس فورس کا لکھوں تو اس سے مُراد ہرگز ہرگز ایماندار پولیس اہلکار نہیں ہیں جو آج بھی اس دور رشوت ستانی میں اپنی تنخواہ پر گزر بسر کرتے ہیں بلکہ یہاں مُراد وہ رشوت خور پولیس اہلکار ہیں جو رمضان میں بھی حرام خوری سے باز نہیں آتے میں یہ سب لکھنے پر کیوں مجبور ہوا یہ بھی سُن لیں ۔
صوبہ پنجاب میں مریم نواز کا راج اور رمضان تقریباً ساتھ ساتھ ہی آئے یہ پہلا امتحان تھا جو مریم نواز کو درپیش تھا بڑے چیلنجز سامنے تھے، مہنگائی سر فہرست اور امن و امان دوسرا بڑا ہدف تھا اس لیے ساری حکومتی مشینری رمضان ریلیف پیکج میں مصروف ہوئی کہ اس طرح غریب افراد کو گھر کی دہلیز پر راشن پہنچایا جائے، یہ سکیم بہت سے اعتراضات کے ساتھ اچھے انداز میں چل رہی ہے لیکن امن و امان کی بات کریں تو پنجاب کا ہر شہر کچے کا علاقہ معلوم ہوتا ہے، کیا لاہور ، کیا ملتان کیا راولپنڈی اور کیا بہاولپور و فیصل آباد سب جگہوں پر پولیس ناکام اور ڈاکو ، قاتل ، چور ،راہزن ، منشیات فروش کامیاب نظر آتے ہیں صرف لاہور میں خواتین اور بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات بڑھنے لگے ہیں پانچ دنوں کے دوران جنسی ذیادتی و دیگر مقاصد کے لیے خواتین کے اغواء کی 53 وارداتیں رپورٹ ہوئیں یہ واقعات 20 سے چوبیس مارچ کے دوران پیش آئے ،خواتین کی عصمت دری و دیگر واقعات پر 365 بی کے مقدمات درج کیے گئے ، متاثرہ خواتین کو انصاف ملا نہ ہی ملوث ملزمان پکڑے گئے ،بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات بھی نہ رک سکے ،پانچ دنوں میں چار بچوں کو جنسی ذیادتی کا نشانہ بنایا گیا ،تین بچے اور ایک بچی سے جنسی ذیادتی کے واقعے رپورٹ ہوئے 20 سے 24 مارچ کے چار دنوں میں 7 بچے مختلف علاقوں سے اغواء ہوئے۔
ضرورپڑھیں:محسن نقوی اور افسر شاہی کی بس
اب ذرا بات کرلیتے ہیں ماہ رمضان کی تو اس کے اعدادوشمار اور بھی خوفناک ہیں ماہ صیام کا پہلا عشرہ ڈاکوؤں نے خوب دل لگا کر عوام کو لوٹا رمضان کے پہلے عشرے میں ڈکیتی و راہزنی کی سات سو سے زائد وارداتیں رپورٹ ہوئیں یعنی ہر ایک روزے میں 70 شہری لُٹ رہے ہیں موبائل و پرس جھپٹنے کی تین سو بیس وارداتیں ہوئیں ،اسٹریٹ کریمنلز اور ڈاکوؤں نے لاکھوں روپے نقدی ، موبائل فونز اور زیورات لوٹ لیےپہلے عشرے میں دوران ڈکیتی مزاحمت پر تین بچوں کا باپ قتل جوہر ٹاؤن میں ڈاکوؤں نے سٹور لوٹ لیاشاپ رابری کی درجنوں وارداتوں میں بھاری رقم چھین لی گئی دسویں روزے کی شام باغبانپورہ میں 50 لاکھ کی ڈکیتی ہوئی ،چار ڈاکوؤں نے گودام عملے کو یرغمال بناکر لوٹ مار کی ،ڈاکو کلوزسرکٹ فوٹیجز بھی ساتھ لے گئے ،راہ گیروں سے موبائل جھپٹنے کی 300 سے زائد وارداتیں ہوئیں ،ماہ صیام کے دس دنوں میں شاپ رابری کی پچیس وارداتیں ہوئیں اور یہ سب خبریں پولیس ریکارڈ کے مطابق ہمارے چیف کرائم رپورٹر عرفان ملک نے دی ہیں تو یہ ہے وہ کارکردگی جس پر لاہور پولیس کو تمغہ حسن کارکردگی تو بنتا تھا جو دے دیا گیا ۔
اب آئیے میرے بلاگ کے عنوان کی جانب تو دو واقعات ایسے سامنے آئے کہ مجھے لکھنا پڑا کہ شیطان تو قید ہے پولیس آزاد پہلا واقعہ تھانہ گڑھی شاہو کا ہے جہاں ایک خانگی جھگڑے کے معاملے میں ایک سنیارے کو ڈی ایس پی صاحب نے بلوایا کہ مذکورہ مقدمے میں شوہر نے اپنی بیوی کا زیور گروہ رکھوایا تھا جس پر بات تھانے تک پہنچی خیر ڈی ایس پی کے روبرو میاں بیوی میں صلح ہوگئی اور وہ گھر چلے گئے لیکن پولیس نے سنیارے کو روک لیا اور کہا کہ دس ہزار چائے پانی دو ورنہ موٹر سائیکل چھوڑ جاو وہ بیچارہ سفارش کراکر ایس پی کے پاس حاضر ہوا ایس پی سے ملاقات تو نا ہوئی البتہ ایس پی کے سٹاف نے مدد کرنے کی یقین دہانی کرائی اور نمبر لے لیا جس کے بعد تھانہ ہربنس پورہ سے فون آیا کہ اپنی موٹر سائیکل لے جاو موصوف جب موٹر سائیکل لینے پہنچا تو اسے مبینہ طور پر کہا گیا کہ دس نہیں صرف چار ہزار ہی دے دو وگرنہ تھانہ ہے موٹر سائیکل کے پرزے بھی چوری ہوجائی گے ناچار وہ چار ہزار ادا کر کے اپنی موٹر سائیکل لے آیا ۔
یہ بھی پڑھیں:قصیدہِ مریم شریف، ’یہ جو دس کروڑ ہیں جہل کا نچوڑ ہیں‘
دوسرا واقعہ گنپت روڈ کا ہے پنجاب پولیس نے صوبے سے جرائم کا "مکمل خاتمہ کرنے کے بعد بیکار بیٹھی تھی کہ وزیر اعلیٰ نے اسے گڈی ڈور کے کریک داون کا حکم دیا لوہاری گیٹ پولیس کو موقعہ ہاتھ لگا اور اس نے گنپت روڈ پر اُن دکانوں پر چھاپہ مارا جہاں یہ کاغذ فروخت ہوتا ہے یاد رہے یہ کاغذ صرف پتنگ بنانے کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ بہت سی انڈسٹرئیل پراڈکٹ اس میں پیک ہوتی ہیں ، خیر دکانداروں کو کریک ڈاون کا سنا کر مبینہ طور پر کسی سے لاکھ تو کسی سے اڑھائی لاکھ روپے بھتہ لیا اور جو نا مانا اسے اٹھا لیا گیا ۔
اب آپ ہی بتائیے جس پولیس کو اعزازات سے نوازا جا رہا ہے اُس پولیس کا کردار کیا ہے؟ لیکن میں آج بھی سمجھتا ہوں کے کہ حضرت عبیر ابوزری مشہور فیصل آباد والے شاعر سچ ہی لکھ گئے ؎
ﭘُﻠﺲ ﻧﻮﮞ ﺁﮐﮭﺎﮞ ﺭﺷﻮﺕ ﺧﻮﺭ
ﺗﮯ ﻓﯿﺪﮦ ﮐﯽ
ﭘﭽﮭﻮﮞ ﮐﺮﺩﺍ ﭘﮭﺮﺍﮞ ﭨﮑﻮﺭ ﺗﮯ
ﻓﯿﺪﮦ ﮐﯽ
ﺟﮭﺎﮌﻭ ﻧﺎﻝ ﺑﻨﺎﻭﻥ ﻣﻮﺭ ﺗﮯ ﻓﯿﺪﮦ
ﮐﯽ
ﺑﻮﺗﮭﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮨﻮﺭ ﺩﯼ ﮨﻮﺭ ﺗﮯ
ﻓﯿﺪﮦ ﮐﯽ
ﮐﻮﻟﻮﮞ ﭘﺎﻥ ﺑﻨﺎﻭﻥ ﭼﻮﺭ ﺗﮯ ﻓﯿﺪﮦ
ﮐﯽ
ﭘﮭﮍ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﯾﻦ ﺩﮬﺴﻮﺭ ﺗﮯ
ﻓﯿﺪﮦ ﮐﯽ
مریم نواز شریف اگر پولیس کی کارکردگی کو آج سے ہی مانیٹر نہیں کریں گی تو عید کے آتے آتے ڈاکو آدھے صوبے کو لوٹ چکے ہوں گے ۔
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں:ایڈیٹر