خدارا! خان صاحب قوم کو مزید بیوقوف بنانا چھوڑ دیں
تحریر: سلیم بخاری
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے رحیم یار خان جلسے میں بھی عوام کو لولی پاپ دیدیااور دوسرے آزادی مارچ کی تاریخ کا اعلان نہ کر سکے۔عمران خان نے رحیم یار خان جلسے میں بھی وہی دہرایا جو وہ پشاور، گوجرانوالہ، چارسدہ اور بہاولپور جلسوں کے علاوہ آدھی درجن سے زائد بار قوم سے خطاب میں کہہ چکے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی عمران خان نے اپنے فالورزاور ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیٹھے اپنے چاہنے والوں کو مایوس کیاتاہم انہوں نے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کی دھمکی پر شدید تنقید کی، وفاقی وزیر داخلہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اگر عمران خان اور ان کے فالورز وفاقی دارالحکومت کی طرف مارچ کریں گے توان سے 25 مئی کے مقابلے میں بری طرح پیش آئیں گے،رانا ثنا اللہ کا مزید کہناتھا کہ آپ ابھی آزادی مارچ کی تیاری کر رہے ہیں جبکہ ہم مکمل طور پر تیاری کرکے بیٹھے ہیں اور آپ کا انتظار کررہے ہیں۔
وفاقی وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی پاگل شخص کو دارالحکومت پر حملے کی اجازت نہیں دی جائیگی، اگر 25 مئی کو آپ کی تیاری نہیں تھی تو کس نے آپ کو مارچ کرنے کیلئے کہا تھا؟رانا ثنا اللہ نے کہاکہ آپ نے اپنے احتجاجی مارچ کی تیاری کیلئے ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں کئے اور آپ یہ بھی دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ مسلح گروپ اس وقت مارچ کا حصہ تھے؟
وفاقی وزیر داخلہ کا کہناتھا کہ اگر آپ دوبارہ آزادی مارچ کے لبادے میں مسلح گروہ لے کر آئیں گے تو قانون نافذ کرنے والے ادارے قانون کے مطابق نمٹیں گے اور اسلام آباد کو بچائیں گے۔
ضرور پڑھیں : پاکستان کو ’’کنوارہ‘‘رہنے سے بچائیے!!
انہوں نے خیبرپختونخوا اور پنجاب حکومت پر سخت تنقید کی جب دونوں حکومتوں نے وفاقی دارالحکومت ، اس کے شہریوں اور ان کے املاک کی حفاظت کیلئے پولیس کی نفری دینے سے انکار کردیا،یہ مطالبہ پہلے آزادی مارچ کی طرح صورتحال سے بچنے کیلئے کیا گیا جب مشتعل ہجوم نے درختوں اور عمارتوں کو آگ لگائی جس نے اسلام آباد میں تعینات پولیس اور رینجرزکو آنسو گیس کی شیلنگ اور لاٹھی چارج پر مجبور کیا ۔
عمران خان کو احتجاج مارچ کے ذریعے اتحادی جماعتوں کی حکومت کو ہٹانے میں مایوسی عجیب ہے،اچانک موسلادھار بارشوں اور گلیشیئرزکے پگھلنے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے اور ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے اور آپ ملک بھی عام انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اور وہ بھی وقت سے پہلے۔
کوئی نہیں جانتا کہ عمران خان کونسی زبان سمجھتے ہیں جبکہ انہیں وزیراعظم شہباز شریف اور پی ڈی ایم رہنما متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ قبل از وقت انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اسی طرح ان کے نئے آرمی چیف کی تقرری کو موخر کرنے کے مطالبے کو بھی تمام متعلقہ اداروں نے رد کردیا ہے۔
آپ کو بطور وزیراعظم اس بات کو سمجھنا چاہئے کہ وزیر دفاع کی جانب سے تین یا پانچ ناموں کی سمری بھیجی جاتی ہے جس میں کسی ایک کو آرمی چیف تعینات کرنا وزیراعظم کا اختیار ہے۔مگر ہمیشہ کی طرح آپ اب بھی انکار کے موڈ میں ہیں اور خیال کرتے ہیں جو آپ سوچتے کرتے ہیں وہ ٹھیک ہے باقی سب بکواس ہے
مگر خان صاحب آپ مسلسل اپنے بیانیے سے منحرف ہو رہے ہیں آپ نے احتساب جیسے نعرے کیساتھ آغاز کیااوردعویٰ کیا کہ جب آپ اقتدار سنبھالیں گے تویہ عمل آپ کے فرد، آپ کے گھر بنی گالہ، آپ کے وزیروں اور مشیروں سے شروع ہو گا ،کیا آپ اپنے الفاظ پر قائم ہیں، ہرگز نہیں، آپ نے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کیں اور پارٹی میں اپنے اردگردموجود تمام لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جن کے کیسز اور ریفرنسز عدالت میں زیرالتوا تھے۔
خان صاحب آپ نے ایک اور جھوٹا دعویٰ کیا کہ آپ کی حریف جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے ارکان کیخلاف تمام مقدمات ان کے اپنے دور حکومت میں درج کئے گئے تھے ،یہ ایک کھلا جھوٹ ہے، آپ نے ان کے خلاف بڑی تعداد میں مقدمات چلائے اور یہ الگ بات تھی کہ ان میں کوئی بھی عدالتوں میں ثابت نہ ہو سکا اور نہ ہی مبینہ لوٹی ہوئی رقم میں ایک پیسہ بھی برآمد ہوا۔
یہ بھی پڑھیے: مبارک ہو! مسٹر ایکس اور مسٹر وائے مل گئے
خان صاحب، آپ نے قومی احتساب بیورو(نیب)کے سابق چیئرمین کو نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف مقدمات بنانے بلکہ اپنی پارٹی کے رہنماﺅں اور ساتھیوں کیخلاف مقدمات بند کرنے کیلئے بھی استعمال کیا۔
خان صاحب تبدیلی، انقلاب، اصلاحات اور گڈگورننس جیسے سب نعرے دم توڑ چکے ہیں اور اب سائفر بیانیہ استعمال کیا جا رہا ہے جس میں امریکا کے ڈپٹی سیکرٹری سطح کے دفتر پر عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے آپ کی حکومت کو گرانے کی سازش کا الزام لگایا گیاہے جو اب بکنا بند ہو گیا ہے۔
کیا یہ حیران کن بات نہیں کہ جب آپ اپنے پیروکاروں کو یہ یقین دلانے کی سنجیدہ کوششیں کر رہے تھے کہ آپ کی برطرفی کے پیچھے امریکی حکومت کا ہاتھ ہے، آپ اور آپ کی پارٹی کے رہنما امریکی سفارت کاروں اور رائے سازوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں جن میں سفیر ڈونلڈ بلوم اور رابن رافیل بھی شامل ہیں؟
اور آپ نے ایک جج کے مشورے ”پی ٹی آئی کے منتخب اراکین کو اپنا اصل کردار ادا کرنے کیلئے قومی اسمبلی میں واپس آنا چاہئے“ کا جواب دیتے ہوئے آپ نے اسے سائفر ایشو کی انکوائری سے مشروط کر دیا۔ کیا آپ خان صاحب کو بھول گئے کہ آپ کو دوٹوک الفاظ میں بتایا گیا تھا کہ مسلح افواج کی دو ایلیٹ انٹیلی جنس ایجنسیوں بشمول انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) نے اس معاملے کی مکمل چھان بین کی ہے اور اس میں کوئی عنصر نہیں ملا۔ اس میں کوئی سازش؟
آخری بات یہ ہے کہ خان صاحب اپنے پیروکاروں کے ساتھ سیاسی چالیں کھیلنا بند کر دیں جو آپ کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس قوم کو بدعنوانی کی لعنت سے نجات دلانے اور تباہ حال قومی معیشت کو فروغ دینے کیلئے آپ کو حقیقی مسائل پر توجہ دینی چاہیے۔ یہ اس قوم کا آپ پر قرض ہے جس نے آپ کو اس مقام پر رکھا ہے جہاں آپ ڈیلیور کر سکتے ہیں۔