چین سے بات کرکے زراعت کو سی پیک میں لے آئے : وزیراعظم
Stay tuned with 24 News HD Android App
(24نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم جدید زراعت کی جانب بڑھ رہے ہیں، کسان جتنا مضبوط ہوگا معیشت اتنی مضبوط ہوگی۔ چین سے بات کر کے ایگریکلچر کو سی پیک میں لے آئے ہیں، ایگریکلچر میں چین کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں گے۔
ملتان میں کاشت کاروں کے لیے کسان کارڈ کے اجرا کے لئے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آج ہم نے وہ قدم اٹھایا جو ثابت کرے گا کہ ہم جدید زراعت کی جانب جارہے ہیں، آج اجرا ہونے والا کسان کارڈ پاکستان کو تبدیل کردے گا۔کسان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے اسے کتنا مضبوط کریں گے، اتنا ہم اپنے ملک کو مضبوط کریں گے۔ جیسے جیسے ٹیکنالوجی کی طرف جاتے رہیں گے کرپشن نیچے آتی رہے گی۔
وزیراعظم نے کہا کہ صرف ہمارے دور میں کسانوں کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں 500 روپے کا اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں کسانوں کے پاس 500 ارب روپیہ آیا۔انہوں نے کہا کہ کسانوں کو ملنے والے گندم، مونگی، مکئی اور دودھ کی قیمت سے کسانوں کے پاس اضافی 11 سو ارب روپے کسانوں کے پاس گئے ہیں، سب سے زیادہ غربت دیہاتوں میں ہے اور اس طرح ہم تخفیف غربت کے ہدف کی جانب بڑھ رہے ہیں۔عمران خان کا کہنا تھا کہ گنے، چاول کی فصل سے کسان کو 2 سال میں 1100 ارب روپے ملے، جب فصل خراب ہوتی ہے تو کسان کے حالات خراب ہوتے ہیں، نہری نظام کو بہتر کیا جا رہا ہے، پانی کی کمی کے باعث زرعی پیداوار کم ہو جاتی ہے،ہماری حکومت نے 2 بڑے ڈیموں پر کام شروع کیا، لائیو سٹاک شعبے کو بھی بہتر کیا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ 12 سو ارب روپے دیہاتی علاقوں میں جانے کا مقصد ہے کہ وہاں حالات بہتر ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ پر ایک ہزار کی ڈی ایل پی پر سبسڈی دی جائے گی جس میں کھاد اور کیڑے مار ادویات پر بھی سبسڈی ملے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے کسان آج بھی وہی طریقہ کار استعمال کررہے ہیں جو موئن جو دڑو میں 5 ہزار سال پہلے رائج تھے، نئی چیزیں نہیں سوچی گئیں اس لیے ایکسٹینشن سروسز کو نجی اداروں کو دینے والے ہیں کیوں کہ حکومتی ایکسٹینشن سروسز نے بالکل ڈیلیور نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا میں ساتویں یا آٹھویں نمبر پر گائیں بھینسیں پاکستان میں ہیں لیکن ہم ابھی بھی دودھ درآمد کرتے ہیں کیوں کہ ہماری پیداوار کم ہے اور ان مویشیوں کی نسلیں بہتر بنانے کے لیے 40 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس سے ایک سے 2 سال میں تبدیلی آجائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کسان کارڈ کے ذریعے ہم قرضے بھی دے سکیں گے اور جب قدرتی آفات کے سبب فصل تباہ ہوجاتی ہے تو ان کی بھی اس کارڈ کے ذریعے مدد کی جائے گی۔
وزیراعظم نے بتایا کہ پانی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیداوار متاثر ہوتی ہے اس کے لیے 50 سال بعد 2 بڑے ڈیمز تعمیر کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کے لیے اضافی پانی آئے گا، اس کے علاوہ چھوٹے ڈیمز اور نہریں بھی بنائی جارہی ہیں۔وزیراعظم نے بتایا کہ پانی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے پیداوار متاثر ہوتی ہے اس کے لیے 50 سال بعد 2 بڑے ڈیمز تعمیر کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کے لیے اضافی پانی آئے گا، اس کے علاوہ چھوٹے ڈیمز اور نہریں بھی بنائی جارہی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے 30 ارب روپے کے ٹرانسفارمیشن پلان میں 200 ارب روپے صرف نہریں پکی کرنے کے لیے مختص ہیں، چین کے ساتھ بات کر کے زراعت کو سی پیک میں شامل کردیا ہے کیوں کہ وہاں ہم سے کہیں زیادہ پیداوار حاصل کی جاتی ہے اس لیے ہم ان کے تجربوں سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ ' وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی بہترین زرعی تحقیقاتی ادارے جو توجہ نہ ملنے کی وجہ سے نیچے چلے گئے تھے ان کی تجدید کی جارہی ہے اور دال، تیل کے بیج، سویابین، اسپغول ہم اب پاکستان میں اگانے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ انہیں ہم باہر سے درآمد کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان وہ خوش قسمت ملک ہے جہاں زیادہ تر علاقہ پیداوار کے لیے موافق درجہ حرارت یعنی 15 سے 38 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ہے، اس کا مطلب ہم کچھ بھی اگا سکتے ہیں، ہم اللہ کی نعمتوں کا بہت زیادہ فائدہ اٹھاسکتے ہیں کہ ہمیں کوئی چیز درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔