ہائیکورٹ کادوران حراست تشدد کرنیوالے پولیس افسروں سے متعلق بڑا فیصلہ

Apr 26, 2021 | 22:02:PM

(24 نیوز)لاہور ہائیکورٹ نے شہریوں کو غیر قانونی حراست میں رکھے جانیوالے شہریوں کو پولیس افسروں کی جیب سے معاوضہ دینے کا حکم دے دیا۔

تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چودھری عبدالعزیز نے 15 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں اقوام متحدہ کنونشن کے تحت گرفتار ملزموں پر تشدد نہ کرنے کا بھی حکم دیا۔ پولیس میں تشدد کا رویہ ختم کرنے کیلئے اہلکاروں اور افسروں کی تربیت بھی کروانے کا حکم۔ مقدمات میں گرفتاری کے وقت فوری طور پر ملزموں کو گرفتاری کی وجوہات بھی فراہم کرنے کا حکم ۔
عدالت کا پنجاب کے تمام تھانوں میں پولیس رولز اور پولیس آرڈر کے تحت روزنامچہ رجسٹر مرتب کرنے کا بھی حکم۔ آئین کا آرٹیکل 9 شہریوں کی آزادی اور زندگی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، آئین کا آرٹیکل 10 ہر گرفتار شہری کو اسکی وجوہات سے آگاہ کرنے پر زور دیتا ہے۔
جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے فیصلے میں لکھاہے کہ آئین کا آرٹیکل 10 گرفتار شہری کو اسکی مرضی کا وکیل سے مشاورت کرنے کا حق دینے کی بھی ضمانت دیتا ہے، تھانوں میں شہریوں کی غیرقانونی حراست انکے بنیادی حقوق کی نفی ہے، عدالتیں غیرقانونی طور پر حراست میں رکھے گئے شہریوں کے معاملے کو معمولی نہیں سمجھ سکتیں۔
 ریاست کے ہر ادارے پر آئین کے آرٹیکل 14 کے تحت ہر شہری کی تکریم لازم ہے، آئین کا آرٹیکل 14 شہری سے ثبوت کی غرض سے اس پر تشدد کرنے سے روکتا ہے، آئین اس ملک کا مقدس ترین قانونی دستاویز ہے، ریاستی اداروں کو شہریوں کے بنیادی آئینی حقوق پامال کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ پولیس کی غیرقانونی حراست میں شہریوں پر تشدد اور بے حرمتی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، پولیس کے غیر آئینی روہے سے نمٹنے کیلئے عدالتوں کو عملی طور پر آگے آنا پڑے گا۔
 فیصلے میں لکھا گیاہے کہ حالیہ برسوں میں پولیس نے اپنے کام میں زوال پیدا کر لیا ہے، پولیس قوانین اور رولز کے تحت گزیٹڈ آفیسر پر لازم ہے کہ وہ سال میں 2 بار تھانوں کی انسپکشن کرے، بد قسمتی سے پولیس تھانوں کی انسپکشنز اور دیگر لازم شرائط ختم ہو چکی ہیں، شہریوں کے آئینی حقوق کو پامال کرنیوالے پولیس افسروں کیخلاف مقدمات درج کرنے اور محکمانہ کارروائیوں کا حکم دیا جائے۔
 جسٹس چوہدری عبدالعزیز نے کہا کہ عدالتیں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے موجود ہیں،شہریوں کے بنیادی حقوق پامال کرنیوالے سرکاری ملازم کو چھوڑنا آئین کے بنیادی حقوق کے آرٹیکلز کالعدم کرنے کے مترادف ہے، عدالت امن و امان کیلئے جانیں دینے والے پولیس افسروں اور اہلکاروں کی قربانیوں سے غافل نہیں۔پولیس کی جانب سے شہریوں کے حقوق کی پامالی کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں جنہیں روکنے کی ضرورت ہے۔
 بنیادی حقوق پامال کرنیوالے پولیس افسروں سے متاثرہ شہریوں کو معاوضے دلوا کر ایسے رویے کو روکا جا سکتا ہے، عدالت کا پنجاب کے تمام تھانوں کی پولیس رولز کے مطابق انسپکشنز کرنے کا بھی حکم۔ عملدرآمد کیلئے فیصلے کی کاپی آئی جی پنجاب کو بھی بھجوانے کا حکم۔ پنجاب کے اکثر تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر مرتب ہی نہیں کیا جاتا، تحریری فیصلہ پولیس کا روزنامچہ رجسٹر ترتیب نہ دینے کا مقصد تھانوں میں ہونے والی لاقانونیت کو چھپانا ہوتا ہے، تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر مرتب نہ کرنا اعلی پولیس افسروں کی لاپرواہی کو ظاہر کرتا ہے۔
 پولیس کے برے اعمال نے کریمنل جسٹس سسٹم کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، عام طور پر پولیس ملزموں کو زیادہ عرصہ حراست میں رکھنے کیلئے انکی گرفتاری روزنامچہ رجسٹر میں درج ہی نہیں کرتی، تھانوں میں روزنامچہ رجسٹر ترتیب نہ دینا افسوسناک اور آئین میں دیئے فیئر ٹرائل کے آرٹیکلز کی بھی خلاف ورزی ہے۔
 لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس چودھری عبدالعزیز نے خاتون بی بی کی درخواست پر تحریری فیصلہ جاری کیا ۔عدالت میں محمد ظفر، عابد حسین اور غلام اکبر کی بازیابی کیلئے درخواست دائر کی گئی، فیصلہ عدالت کا 3 شہریوں کو گرفتار کرنیوالے کانسٹیبل کے اثاثوں کی چھان بین کا بھی حکم ۔عدالت کا کانسٹیبل اکرم کی جیب سے 3 
متاثرین کو 40 ہزار روپے معاوضہ ادا کرنے لا حکم ۔عدالت نے ایس ایچ او کی جیب سے متاثرین کو 20 ہزار روپے معاوضہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
یہ بھی پڑھیں:پاکستان کے تیار کردہ وینٹی لیٹرز کارآمد نہیں، شبلی فراز

مزیدخبریں