حکومت عمران خان سے ہاتھ ملانے کو تیار،جیل سے کیا جواب آیا ہے؟

Apr 26, 2024 | 09:15:AM
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز)آج کل ایک بار پھر سیاست میں مفاہمت کا پرچار کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے ہر روز ایک نئی بات ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے۔کچھ روز قبل یہ خبر سامنے آئی کہ ایک ’’پاکستان کے خیر خواہوں‘‘ کا گروپ بانی تحریک انصاف اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں اختلاف ختم کرانے کا خواہاں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نے کراچی میں تاجروں سے ملاقات کی تو اس میں بھی ایک تاجر رہنما عارف حبیب نے مسائل کے حل کے لیے شہباز شریف کو بانی تحریک انصاف سے ہاتھ ملانے کی بات کی ۔
پروگرام’10تک‘کے میزبان ریحان طارق کہتے ہیں کہ اس صورتحال میں جب ہر کوئی حکومت کو بانی تحریک انصاف سے ہاتھ ملانے کا مشورہ دے رہا ہے وہیں ایک حقیقت شدت محسوس کی جا رہی ہے کہ یہ مشورہ اور اس طرح کا زور بانی تحریک انصاف پر بھی دیا جا رہا ہے کہ وہ ملکی مسائل کے حل کے لیے حکومت کے ساتھ مل بیٹھے۔یہاں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب کی حکومت ہو یا پی ڈیم کی گزشتہ حکومت ،نواز شریف ہو یا شہباز شریف،آصف علی زردری ہو یا بلاول ہر ایک نے کسی نہ کسی موقع پر مفاہمت کی اور مل بیٹھنے کی بات کی ۔ لیکن تحریک انصاف نےہر بار اس طرح کی آفر کو ٹھکرایا ہے۔اپنی طرف بڑھنے والا ہر ہاتھ جھٹکا ہے۔ اس بار بھی یہی ہو رہا ہے ۔تحریک انصاف اور خود بانی تحریک انصاف ایسی کسی بھی کوشش کو خود سے ناکام بنا رہےہیں اور ماحول کو کشیدگی سے نکالنے کی بجائے مزید کشیدہ بنا رہےہے ۔ بانی تحریک انصاف سے ملاقات کرنے والے شیر افضل مروت نے مفاہمت کے حوالے سے بانی تحریک انصاف کے خیالات میڈیا کے سامنے رکھے ہیں،اسی طرح تحریک انصاف کے سینئر رہنما حامد خان بھی یہ بتاتے ہیں کہ بانی تحریک انصاف اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہوں نے ماضی سے سبق سیکھا ہے۔ سیاسی حکومت سے بات چیت کے معاملے پرع بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت جعلی ہیں، کسی بھی بات چیت سے پہلے الیکشن کوٹھیک کیا جائے۔
دوسری جانب تاجر رہنماوں کے حالیہ مشورے پر ن لیگ یہ سمجھتی ہے کہ اداروں سمیت ہر طبقہ فکر میں 12 ،14 سال کی محنت سے انتشار پیدا کیا گیا ہے،اب قوم تقسیم ہوگئی ہے۔اس لیے تاجر بی اب نیوٹرل نہیں ۔اس لیے یہ سٹیمنٹ بھی کسی کی خواہش پر دی گئی ہے۔سابق وزیر داخلہ اور مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثنا للہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف سمیت ان کی جماعت کے کسی رہنما کو بانی تحریک انصاف سے بات کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ۔لیکن اصل مسئلہ عمران خان کا ہے جسے کوئی نہیں سمجھا سکتا ۔ اور وہ سمجھنے والی چیز نہیں۔
پیپلز پارٹی کے رہنما ندیم افضل چن بھی یہی سمجھتے ہیں کہ مسئلہ تحریک انصاف کا ہی ہے۔کیونکہ انہوں تحریک انصاف کو کئی بار یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے آپ کے پاس اس وقت سیٹیں ہیں۔ تو آپ آئیں پیپلز پارٹی کے ساتھ مزاکرات کریں۔ بیٹھ کر بات کریں۔ گوہر صاحب کو دو دفعہ ملا۔۔ گوہر صاحب نے کہا کہ ہمارے چیئرمین نہیں مانتے ۔ کسی صورت بات نہیں کریں گے۔
تحریک انصاف اور باقی جماعتوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے کا یہ مشورہ نیا نہیں ۔اور نہ ہی یہ پہلی بار ہے کہ خود سے حکومت یا کسی وقت اپوزیشن میں رہنے والی آج کی حکومت نے ملک بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی بات کی ہو۔ایسی آفرز دسیوں بار کی جا چکی ہے لیکن یہ اس بارے میں کوئی بھی پیش رفت ممکن نہیں ہوئی ۔ ہر بار تحریک انصاف کی جانب سے ایسے کوشش کو ناکام بنایا گیا ہے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کب تک سیاست میں سولو فلائٹ کا ارادہ رکھتی ہے۔کیا اس سوچ سے وہ خود کو ملک کو مسائل سے نکال سکتے ہیں ؟کیا مسلسل لڑائی اور الزامات کی سیاست سے ان کا سیاسی بقا ممکن ہے۔ اور کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ جن کے دم پر آپ حکومت میں آئے آج ان کے ساتھ بھی آپ کے تاریخی اختلافات ہے اور کہیں نہ کہیں اسی سبب اپ کی جماعت مشکلات کا بھی شکار ہے۔

دیگر کیٹیگریز: ویڈیوز
ٹیگز: