ازخودنوٹس کااختیارچیف جسٹس کے پاس۔ لارجر بنچ نے کیس نمٹادیا

Aug 26, 2021 | 16:46:PM
 ازخودنوٹس کااختیارچیف جسٹس کے پاس۔ لارجر بنچ نے کیس نمٹادیا
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

 (24نیوز)سپریم کورٹ نے از خود نوٹس کے پیرا میٹرز طے کرتے ہوئے کہا ہے کہ ازخودنوٹس کااختیارچیف جسٹس کے پاس ہے اور از خود نوٹس صرف چیف جسٹس کی منظوری سے ہی لیا جاسکتا ہے۔قائم مقام چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے ازخودنوٹس لینے کے طریقہ کار کے کیس کی سماعت کی۔ فاضل بنچ نے اپنے فیصلے میں از خود نوٹس کے پیرا میٹرز طے کردیئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ از خود نوٹس صرف چیف جسٹس یا ان کی منظوری سے ہی لیا جاسکتا ہے،بنچز کی جانب سے لئے گئے تمام نوٹسز پر سماعت معمول کے مطابق ہوگی، ازخود نوٹسز کیس وہی بنچ سنے گا جس کے پاس زیرالتوا ہے، بنچ ازخود نہ تو کسی کو طلب کر سکتا ہے نہ رپورٹ منگوا سکتا ہے، بنچز کے نوٹسز پر سماعت چیف جسٹس کے تشکیل کردہ بنچ ہی کریں گے، آئندہ کوئی بھی بنچ از خود نوٹس کے اختیار استعمال کرنے کے لئے فائل چیف جسٹس کو بھجوائے گا۔
 سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سامنے پیش کی گئی صحافیوں کی درخواست بھی نمٹا دی۔دوران سماعت پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کے صدر امجد بھٹی نے عدالت کے روبرو کہا کہ پانچ رکنی بنچ نے قانونی سوالات اٹھائے ہیں، قانونی نکتے پر صحافی معاونت نہیں کرسکتے۔دوران سماعت صحافی عامر میر کے وکیل جہانگیر جدون نے بنچ پر اعتراض کر دیا، جس پر جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ بنچ پر اعتراض جرم نہیں لیکن اس نکتے پر دلائل تو دیں، صحافیوں کی درخواست میں فریقین کے نام بھی شامل نہیں، ایک صحافی نے دستخط 14 دوسرے نے 20 تاریخ کوکئے، جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کا آفس کھلا تھا تو آپ نے درخواست وہاں کیوں نہیں دی؟ جس پر جہانگیر جدون نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ صحافیوں نے درخواست رولز کے مطابق دائر نہیں کی، جن اداروں کو نوٹس ہوا تو وہ درخواست پر اعتراض کر سکتے تھے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ خوشدل خان نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ کسی سائل کو مرضی کے بنچ میں مقدمہ لگانے کی اجازت نہیں، عوام کو عدلیہ سے انصاف کی توقع ہے، تکنیکی نکات کی وجہ سے انصاف میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے، 9 رکنی بنچ قرار دے چکا کہ عدالت طریقہ کار کی پابند نہیں۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر لطیف خان آفریدی ایڈوکیٹ نے عدالت کے روبرو کہا کہ پاکستان بننے کے بعد فوجی حکمرانوں نے زیادہ عرصہ حکومت کی،ڈکٹیٹرز کے دور میں ہر ادارے کو تباہ کیا گیا، معلوم نہیں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ کا حکم کس اختیار کے تحت معطل کیا گیا،بہتر ہے کہ معاملہ چیف جسٹس کو بھجوایا جائے اور اسے فل کورٹ میں رکھا جائے، ممکن ہے چیف جسٹس 2 رکنی بنچ کے ججز کو بھی بینچ میں شامل کرلیں۔
دوران سماعت قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کو قانون اور ضابطے کے تحت کارروائی کرنی ہوتی ہے، صحافی معاشرے کی آواز ہیں، صحافیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر کوئی دو رائے نہیں، صحافیوں کی درخواست برقرار ہے اس پر کارروائی بھی ہوگی، سپریم کورٹ کا ہر بنچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے ، از خود نوٹس کی سماعت پر بنچ بنانا اور تاریخ مقرر کرنا چیف جسٹس کا کام ہے۔ سپریم کورٹ رولز آئین کے تحت بنے ہوئے ہیں، 20 اگست کا حکم سپریم کورٹ کا حکم ہے، موجودہ بنچ سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کے حکم میں مداخلت نہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین کا تحفظ اور بنیادی حقوق کا نفاذ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، صحافیوں کیخلاف کچھ ہوا تو سپریم کورٹ دیوار بن کر کھڑی ہوگی، صحافی عدالت سے کبھی مایوس ہوکر نہیں جائیں گے۔ سپریم کورٹ آئین کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سپریم کورٹ کے تمام ججز محترم ہیں۔ عدالت نے مزید کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعدمیں دیاجائےگا۔ 20اگست کودی گئی درخواست چیف جسٹس کے سا منے رکھی جائے، لارجر بنچ میں میں جسٹس اعجازالاحسن،جسٹس منیب اختر - جسٹس قاضی امین اورجسٹس محمدعلی مظہرپر مشتمل تھا ۔