مچھر انسانوں میں اپنا شکار کیسے چنتے ہیں؟ اہم تحقیق سامنے آگئی 

Aug 26, 2024 | 21:19:PM
مچھر انسانوں میں اپنا شکار کیسے چنتے ہیں؟ اہم تحقیق سامنے آگئی 
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(24 نیوز )یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سانتا باربرا کے سائنسدانوں نے مچھروں کی حیاتیات کے شعبے میں ایک نئی دریافت کی ہے، جس میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ چھوٹے کیڑے اپنے اندر ایک اضافی حسی صلاحیت رکھتے ہیں۔

”نیچر“ نامی سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی اس دریافت نے ہماری مچھروں سے متعلق سمجھ میں ایک نیا اضافہ کیا ہے کہ مچھر، خاص طور پر بیماری پھیلانے والی نسل ”ایڈیس ایجپٹی“ انسانوں میں اپنے شکارکو کیسے تلاش کرتے ہیں۔

پروفیسر کریگ مونٹیل اور محققین نکولس ڈی بیوبیئن اور اویناش چندیل کی سربراہی میں ٹیم نے انکشاف کیا کہ مچھر گرم خون والے جانوروں سے خارج ہونے والی تھرمل انفراریڈ تابکاری کا پتہ لگا سکتے ہیں۔

 یہ قابلیت ان کے شکار کی تلاش کی صلاحیت میں نمایاں طور پر اضافہ کرتی ہے اور دوسرے اشاروں جیسے جیسے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور انسانی بو کے ساتھ مل کر ان کی سرگرمی کو مؤثر طریقے سے دوگنا کر دیتی ہے۔

بیماری پھیلانے والے مچھر کن لوگوں کو زیادہ کاٹتے ہیں؟

مطالعہ نے ظاہر کیا کہ مچھر 70 سینٹی میٹر (2.5 فٹ) تک فاصلے پر انسانی جلد کے درجہ حرارت (34 ڈگری سینٹی گریڈ) کا انفراریڈ تابکاری سے پتہ لگا سکتے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ محققین نے یہ بھی بتایا کہ مچھر کے اینٹینا کی نوک میں مخصوص پیگ ان پٹ اسٹرکچر ہوتے ہیں جو اسے انفراریڈ تابکاری کو محسوس کرنے کے لیے ڈھالتے ہیں۔

ان اسٹرکچر میں درجہ حرارت سے متعلق حساس پروٹین ہوتا ہے جسے TRPA1 کہا جاتا ہے، جو انفراریڈ تابکاری کی وجہ سے تھرمل تبدیلیوں کا پتہ لگانے کے لیے بنیادی سینسر کے طور پر کام کرتا ہے۔

مچھروں کی توجہ کا مرکز کالا رنگ ہی کیوں؟

مزید تفتیش سے انکشاف ہوا کہ دو روڈوپسین پروٹینز“Op1“ اور ”Op2“ انفرا ریڈ کا پتہ لگانے کے نظام کی حساسیت کو بڑھانے میں ملوث ہیں۔ یہ پروٹین، عام طور پر روشنی کا پتہ لگانے سے منسلک ہوتے ہیں اور مچھر کی انفراریڈ سینسنگ کی صلاحیتوں کی حد اور حساسیت کو بڑھانے کے لیے TRPA1 کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

اس دریافت کے صحت عامہ کے حوالے سے اہم اثرات ہیں، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ڈینگی، زرد بخار، اور زیکا پھیلی ہوئی ہیں۔ دنیا کی نصف آبادی خطرے میں ہے اور تقریباً ایک ارب لوگ سالانہ مچھروں سے منتقل ہونے والی بیماریوں سے متاثر ہوتے ہیں، یہ تحقیق مچھروں پر قابو پانے کی حکمت عملیوں کے لیے نئی راہیں کھولتی ہے۔

یہ نتائج انسانی جسم کے درجہ حرارت کی نقل کرنے والے تھرمل انفراریڈ ذرائع کو شامل کرکے مچھروں کے جال کے ڈیزائن میں بہتری کا باعث بن سکتے ہیں۔

 مزید برآں، تحقیق بتاتی ہے کہ ڈھیلے فٹنگ والے کپڑے مچھروں کے کاٹنے سے بچنے کے لیے کارآمد ہیں، کیوں کہ یہ جلد اور تانے بانے کے درمیان انفراریڈ شعاعوں کو روک دیتے ہیں۔