محمد اویس کی عمر 23ہسال ہے اور وہ نابینا ہے‘محمد اویس فیصل آباد کے چک نمبر 236رب کا رہائشی ہے اسے نادرا کی جانب سے خصوصی شناختی کارڈ بھی جاری کیا جا چکاہے جس میں اس کے نابنیا ہونے کی تصدیق کی گئی ہے‘ اویس کے والد سرکاری سکول میں بطور مالی کام کرتے تھے‘ والد کی وفات کے بعد ان کی پنشن اویس کو ملنا اس کا حق ہے‘ مگر اسے نہ والد کی پنشن جاری کی جارہی ہے اور نہ ہی سرکاری ملازمت دی جارہی ہے‘ اویس کا کہنا ہے کہ پنشن کے حصول کے لئے وہ دو سال سے اکاؤنٹس آفس کے چکر لگا رہا ہے‘ نادرا کا خصوصی شناختی کارڈ ہونے کے باوجود کبھی اسے دوبارہ سے میڈیکل سرٹیفکیٹ بنانے کا کہا جاتا ہے یا کوئی اور اعتراض لگادیا جاتاہے‘ جب وہ سرکاری محکموں میں ملازمت کے لئے جاتاہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ نابنیا ہونے کی وجہ سے وہ سرکاری ملازمت کے لئے ان فٹ ہے اگر اسے والد کی پنشن بھی نہیں ملنی اور سرکاری ملازمت بھی تو پھر وہ گزر بسر کیسے کرے؟ محمد اویس کو سال 2022میں بھی نہ تو والد کی پنشن مل سکی ہے اور نہ سرکاری نوکری مل سکی ہے‘ یہ صرف ایک محمد اویس کی کہانی نہیں ہے پاکستان میں اپنی بے بسی کا نوحہ سنانے والے ایسے سینکڑوں افراد موجود ہیں‘ حکومتی سطح پر معذور افراد کی بحالی کے لئے بلد بانگ دعوے تو کئے جاتے ہیں مگر صورتحال اس کے برعکس ہے ۔
معذور افراد کے مسائل اور سماجی رویے
جہاں معذور افراد کے لئے حکومتی عدم توجہی پریشانی کا سبب ہے وہاں سماجی رویے بھی ان کے لئے حوصلہ شکنی کا سبب بنتے ہیں غیر سرکاری تنظیم لوک وہار کی چیئر پرسن صاعقہ کور کا کہناہے کہ افراد باہم معذوری کی بحالی کے لئے بظاہر تو کئی سرکاری ادارے کام کررہے ہیں مگر صورت حال اس کے برعکس ہے‘ جن افراد کی حکومتی اداروں تک رسائی ہوتی ہے ان کی تو دادرسی ہوجاتی ہے مگر جن افراد کی رسائی نہیں ہوتی انہوں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ انہوں نے اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان علاقے میں دو بہن بھائی ایسے ہیں جو ایک حادثہ کے باعث معذور ہوچکے ہیں‘ اور بیڈ پر ہیں‘ ان کے پاس پمپرز (جوکہ ایک بنیادی ضرورت ہے) خریدنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے‘کچھ مخیر افراد ان کی مدد کردیتے ہیں جس سے ان کا گزر بسر ہورہا ہے مگر جب یہ سرکاری امداد کے حصول کے لئے کسی سرکاری محکمے سے رابطہ کرتے ہیں تو انہیں کہا جاتاہے کہ میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہوں‘معذوری کی تصدیق کروا کر آئیں پھر آپ کی داد رسی ہوسکتی ہے‘ وہ بچے جو بستر پر ہیں اور چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہیں وہ کیسے کسی میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہو سکتے ہیں؟ کیا یہ حکومت وقت کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ ان کے پاس جاکر ان کی داد رسی کی جائے‘رخسانہ بھٹی جو کہ خود معذوری کا شکار ہیں خاتون کونسلر بھی رہ چکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ نجی اداروں میں تو دور کی بات سرکاری اداروں حتی کہ میونسپل کارپوریشن‘ ضلع کونسل اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر میں بھی ایسے انتظامات نہیں ہیں کہ جسمانی نقائص یا معذوری کا شکار افراد یہاں جا سکیں‘ ان دفاتر میں وہیل چیئر لے جانے کے لئے ریمپ کی سہولیت تک نہیں ہے‘ ضلع کونسل فیصل آباد کا ہال اوپر کی منزل پر ہے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2021میں بلدیاتی اداروں میں افراد باہم معذوری کے لئے نشستیں تو مختص کردی گئی ہیں مگر یہ افراد اجلاس میں کیسے شرکت کریں گے اس کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا ہے پیس اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی چیئرپرسن رومانہ بشیر نے ان رویہ جات کو انتہائی پریشان کن قرار دیا ہے ان کا کہنا ہے کہ افراد باہم معذوری کے حوالے سے ہمیں اجتماعی سطح پر اپنے رویہ جات تبدیل کرنے کی ضرورت ہے جب معاشرے کی جانب سے انہیں تحفظ اور اپنائیت کا احساس ملے گا تو ان کا وہ خوف اور جھجک دور ہوجائے گی جس کی وجہ سے یہ اپنی معذوری یا نقائص کو چھپانے پر مجبور ہیں -
معذور افراد کے حوالے سے درست اعداد شمار کی عدم دستیابی
پاکستان ان ممالک میں شامل ہیں جن کے پاس وسائل تو بے پناہ ہے مگر وسائل کی منصفانہ تقسیم کے لئے درست اعداد و شمار میسر نہیں ہیں‘سرکاری سطح پر ریکارڈ تو مرتب کیا جاتاہے تا ہم اس ریکارڈ کا زمینی حقائق سے دور تک واسطہ نہیں ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے بنائے جاتے ہیں درست اعداد و شمار نہ ہونے کے باعث عوام کی اکثریت ان کے ثمرات سے محروم رہتی ہے‘ فیصل آباد ملک کا تیسرا جب کہ پنجا ب کا دوسرا بڑا شہر ہے مگر یہاں پر سرکاری محکموں کے پاس معذور افراد کے حوالے سے جو اعداد و شمار ہیں ان کو دیکھ کر حالات کے حوالے سے سنگینی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے‘ ادارہ شماریات کے مطابق 2017کی مردم شماری کے حوالے سے فیصل آباد میں معذور افراد کی تعداد 37,911 ہے‘نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور ضلعی انتظامیہ کے پاس رجسٹرڈ معذور افراد کی تعداد 8ہزار ہے جبکہ غیر سرکاری تنظیموں اور دیگر ذرائع کے مطابق معذور افرا د کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد ہے
سرکاری محکموں اور غیر سرکاری تنظیموں کے اعداد و شمار میں فرق کی وجوہات
ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیر ڈیپارٹمنٹ آمنہ عالم کا کہنا ہے کہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ صرف ان افراد کا ڈیٹا مرتب کرتا ہے جن کو معذوری کے سرٹفکیٹس جاری کئے جاتے ہیں‘ انہی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے معذور افراد کو خصوصی شناختی کارڈز جاری کئے جاتے ہیں ”ب“ فارم کے حصول کے لئے بھی سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ اور متعلقہ بورڈ سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازم ہے مگر اس کے باوجود ان کے پاس رجسٹریشن کروانے والے معذور افراد کی تعداد انتہائی کم ہے‘ فیصل آباد میں معذور افراد کے حوالے سے مختلف ادارے قائم کرنے والے تنظیم النسان کے سربراہ افتخار احمد سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ سرکاری اداروں کے پاس افراد باہم معذوری کے تعداد کم کیوں ہے تو انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں معذوری یا جسمانی نقائص کو ابھی تک معیوب سمجھا جاتاہے‘ جس کی وجہ سے جب کوئی ایسا بچہ دنیا میں آتاہے جو معذوری کا شکار ہو تو والدین کی حتی المقدور یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کے بارے میں کسی کو نہ بتایا جائے‘ یہی معاملہ بڑوں کے ساتھ بھی ہے جب تک انہیں ضرورت نہ پڑے وہ سرکاری محکموں میں اندراج نہیں کرواتے‘ یہ رجحان انتہائی تکلیف دہ ہے کیونکہ درست اعداد و شمار نہ ہونے کی وجہ سے افراد باہم معذوری کے لئے نہ تو حکومت کی جانب سے فلاح و بہبود کے منصوبے شروع ہوسکتے ہیں اور نہ آبادی کے تناسب سے ان کے لئے فنڈز مختص کئے جا سکتے ہیں
معذور افراد کے لئے روز گار کی عدم دستیابی
حکومت کی جانب سے نجی اداروں کو ملازمین کے تناسب سے معذور افراد کو روزگار فراہم کرنے کے لئے پابند کیا گیاہے مگر اس پابندی پر کلی طور پر عملدرآمد نہیں ہورہا ہے ڈائریکٹر سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ مزمل یار کا کہنا ہے کہ صنعتی ادارے ورکرز کے تناسب سے دو فیصد افراد باہم معذور کو ملازمت دینے کے پابند ہیں ایسا نہ کرنے کے صورت میں ان پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے مگر صنعتی اداروں کی جانب سے ایسے ملازمین کو جو دوران ڈیوٹی زخمی ہوئے ہوں یا معذوری کے معیار پر پورا نہ بھی اترتے ہوں کو دکھا کر اس شرط کو پورا کر لیا جاتا ہے‘ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس امر کی حوصلہ شکنی کے لئے کارروائی کا آغاز کیا گیاہے جس کے تحت مختلف صنعتی اداروں سے جرمانے کی مد میں چالیس لاکھ روپے سے زائد وصول کئے جا چکے ہیں یہ رقم سے معذور افراد کی بحالی پر خرچ کی جارہی ہے -
خصوصی بچوں کے حوالے سے خاندانی عدم توجہ
افراد باہم معذوری خاص کر خصوصی بچوں کے حوالے سے خاندانی سطح پر عدم توجہی بھی ایک بڑا مسلہ ہے‘ چائلڈ پروٹیکشن آفیسر روبینہ اقبال کا کہنا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بیور و میں بیشتر خصوصی بچے ایسے آتے ہیں جو سننے‘ سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت سے قاصر ہوتے ہیں ان میں سے زیادہ بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کا عملہ بازاروں یا مختلف علاقوں سے لے کر آتاہے‘ چونکہ یہ بچے سننے سمجھنے کی صلاحیت سے قاصر ہوتے ہیں اس لئے ان کے گھروں کو تلاش کرنے میں دشواری پیش آتی ہے‘ بعص کیسز میں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بچوں کے حوالے سے پتہ چلنے کے باوجود ان کے اہل خانہ ان کو لینے کے لئے نہیں آتے یہ صورتحال انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے‘ چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں آنے والے بیشتر خصوصی بچے والدین یا دیگر اہل خانہ کی عدم توجہی کے باعث گھر سے باہر نکلتے ہیں-
معذوروں کی بحالی کے لئے ناگزیر اقدامات
معذور افراد کے لئے کام کرنے والے تنظیموں کے مطابق گزشتہ کچھ عرصہ سے معذور افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے‘ پولیو سمیت دیگر کئی وبائی امراض پر قابوپائے جانے کے باوجود معذوری کی شرح میں اضافے کو ماہرین تشویشناک قرار دے رہے ہیں‘لائلپور ری ہیلبی ٹیشن سنٹرکی چیئر پرسن ثروت شاہین کا کہنا ہے کہ معذوری کی شرح میں اضافے کا سبب سے بڑا سبب روڈ ایکسڈنٹ اور ماحولیاتی آلودگی ہے‘روڈ ایکسڈنٹ کی وجہ سے جسمانی معذوروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہے دوسری جانب ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ذہنی عوارض اور بینائی کے مسائل کے باعث بھی معذوری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے‘ماہر اطفال ڈاکٹر خبیب احمد کا کہنا ہے کہ بچوں میں معذوری کا بڑا سبب الیکٹرانک گیجٹس (موبائل فون‘ کمپیوٹر اور ٹیب وغیرہ) ہیں اس کی وجہ سے بچے آٹزم کا شکار ہو رہے ہیں‘ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس آٹزم کا شکار بچوں کو لیکر آنے والے بیشتر والدین یہ بتاتے ہیں کہ بچہ پہلے بالکل نارمل تھا‘ اچانک اس کو بولنے‘ چلنے یا دیگر عوامل کے حوالے سے دشواری پیش آرہی ہے‘جب ان سے پوچھا جاتاہے تو پتا چلتا ہے کہ متاثرہ بچہ الیکٹرانک گیجٹس کا استعمال بہت زیادہ کرتارہا ہے‘ ٹریفک حادثات‘ ماحولیاتی آلودگی اور الیکٹرانکس گیجٹس جیسے عوامل پر قابو پا کر معذوری کی شرح کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے‘ معذور افراد ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں‘ ان پر توجہ دے کر ان کومعاشر ے کا کارآمد شہری بنایا جا سکتاہے‘ پاکستان میں معذور افراد کی بحالی کے لئے سرکاری سطح پرجامع معلومات اور درست اعداد و شمار کا ہونا بہت ضروری ہے‘ ایسا میکنزم وضح کیا جانا چاہئے جس کے ذریعے ضلع کی سطح پر معذور ں کی تعداد‘ جنس کا تعین‘ عمر اور ملازمت کے لئے اہلیت بارے درست معلومات کا حصول ممکن ہو‘ سرکاری سطح پر معذوروں کے لئے روزگار کی فراہمی کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے عالمی مشاورتی کمپنی ”ایکسنچیور“ Accentureاور ایمپلائمنٹ اسسٹنس اینڈ ریسرچ نیٹ ورک آن ڈس ایبلٹی انکلو ژن (ای اے آر این) نیٹ ورک کے مطابق دیکھنے میں آیا ہے افراد باہم معذوری یا خصوصی افراد کو ملازمت دینے والی کمپنی کی نا صرف پیداوار میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کا منافع اور گاہک بھی بڑھ جاتے ہیں اس کی وجہ یہ کہ افراد باہم معذوری کی وہ تخلیقی صلاحتیں ہوتی ہیں جو عام افراد میں نہیں ہوتی ان کی وجہ سے وہ زیادہ کسمٹر ز کو اپنی جانب راغب کر سکتے ہیں‘ افراد باہم معذوری کو کارآمد بنانے کیلئے ہمیں اپنے اجتماعی رویہ جات میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ ان افراد کو اپنائیت اور تحفظ کا احساس اور یہ لوگ بھرپور انداز میں معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لیں سکیں۔