(عامر شہزاد ) پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لیے جانے کا فیصلہ معطل قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے ا نٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی سے بلے کا نشان واپس لیا تھا ، پی ٹی آئی کی جانب سے پشاور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی جس پر سماعت کے بعد عدالت نے پی ٹی آئی کو بلے کا نشان واپس دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا، عدالت نے الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب بھی طلب کر لیا ۔
یہ بھی پڑھیں : افغان باشندے پاکستان چھوڑ چکے؟ سر کاری اعداد وشمار سامنے آگئے
پی ٹی آئی کی جانب سے انتخابی نشان ’’بلا ‘‘واپس لینےسے متعلق درخواست پر پشاور ہائیکورٹ میں تحریک انصاف کے وکیل علی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیرقانونی ہے،پارٹی آئین ہم نے بنایا ہم نے ہی عمل کرنا ہے،جسٹس کامران حیات نے پی ٹی آئی کے خلاف کیس کرنے والے وکیل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار کہاں ہے؟الیکشن کمیشن نے کس قانون کے تحت پارٹی سرٹیفکیٹ مسترد کیا، اگر وہ انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرواتے تو اسکی سزا کیا ہو گی؟ آپ اس کیس میں آ گئے ہیں تو عدالت سن رہی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ وفاق کی جانب سے کچھ کہنا چاہتا ہوں،جسٹس کامران حیات نے کہا کہ ان کو سن کے پھر آپ کو بھی سن لیں گے، ایڈینشل اٹارنی جنرل نے پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کرنے کی درخواست کی مخالفت کر دی ساتھ ہی کہا کہ یہ کیس سنگل بینچ کا نہیں ہے، اس کے لیے 2 رکنی بینچ تشکیل دیا جائے، ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا مزیدکہنا تھا کہ انتخابی نشان کا فیصلہ10 جنوری کو ہونا اور عدالتی چھٹیاں 8جنوریُ کو ختم ہونی ہیں اسکے بعد کیس کو سنا جائے، جسٹس کامران حیات نے کہا کہ ایک پوری سیاسی جماعت کو آپ نے انتخابات سے باہر کر دیا، الیکشن کمیشن کے قانون میں لکھا ہے کہ اگر انٹرا پارٹی انتخابات کوئی پارٹی نہ کرا سکے تو اسکی کیا سزا ہے، اس ملک میں کتنی سیاسی جماعتیں ہیں اور کتنے کیس الیکشن کمیشن کے پاس پڑے ہیں سب کا فیصلہ کریں پھر۔
پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کا فیصلہ غیرقانونی ہے، ایک تعیناتی کی بنیاد پر انتخابی نشان واپس نہیں لیا جاسکتا، پارٹی آئین ہم نے بنایا اور ہم نے ہی عمل کرنا ہے، پارٹی آئین کے مطابق ہی انتخابات کرائے، جسٹس کامران حیات نے سوال کیا کہ اگر سیکرٹری جنرل مستعفی ہوجائے تو کیا ہوگا؟بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عہدہ سنبھال لیتا ہے اور اس وقت عمر ایوب ہی تھے، جسٹس کامران حیات نے پوچھا کہ کیا اسد عمر نے استفعی دیا اور وہ منظور بھی ہوا؟، بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی بالکل لیکن الیکشن کمیشن نے یہ پوچھا ہی نہیں کیونکہ ٹرائل نہیں ہوا۔