پاکستان میں ’شیم ڈیموکریسی‘ ایسے ہی چلتی رہے گی؟
اظہر تھراج
Stay tuned with 24 News HD Android App
پاکستان میں شریف ،بھٹو خاندان حکمرانی کی بحالی ہوئی ہے ۔ن لیگ کی چوتھی ،پیپلز پارٹی کی پانچویں بار اقتدار میں واپسی ہوئی ہے،سندھ میں پیپلز پارٹی کا مسلسل دور حکومت 15 ویں سال میں داخل ہوچکا ہے۔پنجاب میں شریف خاندان کے اقتدار کو 21 سال ہوگئے۔ایسا کیوں ہے کہ اقتدار میں یہ صرف دو خاندان ہی گھوم پھر کر آرہے ہیں ؟
1970سے بھٹو،1985 سے شریف خاندان حکمران بنا ،جب سے یہ دو خاندان سیاست میں آئے انہوں نے ضلع ،تحصیل اور صوبے کی سطح تک اپنے سب نیٹ ورکس بنائے،وفاقی کابینہ بھی انہی نیٹ ورکس پر مشتمل ہے جو خاندانوں پر محیط ہے،بظاہر لگتا ہے یہ خاندان ایک وجہ پر اکٹھے ہوگئے ہیں اور یہ وجہ عمران خان ہیں ۔روایتی سیاست ایک جگہ اکٹھی ہوتی نظر آرہی ہے،یہ سب مال غنیمت کے طور پر لگ رہا ہے،بڑے بڑے عہدے تقسیم کرتے ہوئے قابلیت کو بھی نہیں دیکھا گیا ،یہ حکومت الیکشن جیت کر بننے والی حکومت نہیں۔یہ ایک بڑی پارٹی کو کونے لگا کر بنائی گئی حکومت ہے،اس حکومت کا تاثر مال غنیمت والا بنتا ہے۔
ضرور پڑھیں :وہ ایک بزدل کمانڈو تھا؟
1947 کے بعد بھارت نے تو جاگیر داری نظام کو ختم کردیا،بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہ ہوسکا ۔یہاں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا ،جب ذوالفقار بھٹو جیل میں تھے تو وہ نصرت بھٹو کے بجائے کسی پارٹی رہنما کو قائم مقام چیئرمین بنانا چاہتے تھے لیکن پارٹی میں موجود جاگیر داروں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی انہوں نے نصرت بھٹو کے علاوہ کسی اور کو یہ عہدہ دینے پراعتراض کیا ۔پھر جب بے نظیر بھٹو انتخابات نہیں لڑسکتی تھیں ،تب مخدوم امین فہیم کو پیپلز پارٹی کا صدر بنایا گیا ۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بلاول بھٹو پارٹی چیئرمین اورآصف زرداری شریک چیئرمین بن گئے۔شریف فیملی کا 80کی دہائی تک سیاست سے کوئی تعلق نہیں تھا ،جب نواز شریف وزیر اعظم بنے تو شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنانے کی مخالفت کی گئی ،پھر غلام حیدر وائیں وزیر اعلیٰ بنے۔
پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو بھارتی کانگریس سے سبق سیکھنا چاہئے،خاندانی سیاست زیادہ دیر نہیں چل سکتی ۔جب نواز شریف خاندان کو ملک بدر کیا گیا تو جاوید ہاشمی کو صدر بنایا گیا ،اس کے بعد ان کو ڈمپ کردیا گیا تھا ،یہ صورتحال پارٹیوں کے سوچنے کی ہے۔
نوازشریف تین بار وزیر اعظم رہ چکے ہیں ،چوتھی بار ان کو اقتدار میں آنا پڑا تو وہ رکیں گے نہیں،دراصل ان سیاستدانوں کو طاقت کے نشے کی لت لگ چکی ہے،باپ نہیں تو بیٹی اقتدار میں آجائے گی ۔پاکستان میں سوائے جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کے کسی جماعت میں ڈیموکریسی نہیں ہے، عمران خان کو دیکھیں وہ 25 سال سے پارٹی چئیر مین ہیں ۔جو بھی ان کی پارٹی میں مخالفت کرتا ہے وہ پھر پارٹی میں نہیں رہتا ،کچھ عرصہ تک تو انٹر پارٹی الیکشن ہوتے رہے پھر یہ سلسلہ بھی بند کردیا گیا ۔مولانا فضل الرحمان جے یو آئی پر قابض ہیں،پورا کا پورا خاندان عہدیدار ہے۔بڑی پارٹیوں میں جو بھی سربراہی کوچمٹتا ہے وہ کسی بڑی وجہ کے بغیر جان نہیں چھوڑتا ۔
یہ بھی پڑھیں :کیا عمران خان کو ’’مائنس‘‘کردیا جائے گا؟
جب مرکز میں تبدیلی آئی ،عمران خان حکومت کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹایا گیا تو نواز شریف اور شہباز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کسی اور دے دینی چاہئے تھی۔انہوں نے اپنے خاندان کو اقتدار میں رکھنے کی ضد برقرار رکھی اور حمزہ شہباز کو وزیر اعلیٰ بنوا دیا ،پھر ان کے ساتھ جو ہوا سبھی نے دیکھا ۔سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی میں ایسا کوئی بندہ نہیں تھا جو اس عہدے کیلئے اہل ہو،کیا اس پارٹی کو ‘‘ملزم’’ باپ بیٹے ہی ملے تھے جو 22،23 کروڑ انسانوں پر حکومت کریں ۔
جمہوریت اور جمہور کے نعرے لگانے والی سیاسی جماعتیں عوامی اقتدار کیلئے سنجیدہ ہیں تو اپنی پارٹی پر کارکنوں کی حکمرانی کیوں نہیں چاہتیں ؟اگر بلاول بھٹو پارٹی چیئرمین تھے تو ان کو وزیر خارجہ کیوں بنایا گیا؟پارٹیوں کو خاندانی سیاست سے نکل کرکے آگے بڑھنا چاہئے،اگر ایسا نہ ہوا تو نئی پارٹیاں بنتی رہیں گی ۔اے این پی کے آئین میں ترمیم کرکے اسفند یار ولی کو صدر بنایا گیا ۔پتا نہیں پارٹیوں میں خاندانی نظام کیوں چل رہا ہے،ایسی صورتحال سے پارٹیاں نہ نکلیں تو یہ ’’شیم ڈیموکریسی‘‘ چلتی رہے گی ۔اس سے سیاست کی ترقی رک جائے گی ۔چور دروازے سے ایوان اقتدار تک پہنچنے کیلئے راستے کھلے رہیں گے ۔
نوٹ : ادارے کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضرور ی نہیں۔ادارہ