(24 نیوز)بھارت کی اعلیٰ عدالت میں ایک غیر معمولی درخواست دائر کی گئی ہے جس میں بھارت کی انتہا پسند ہندوتنظیم کی جانب سے ’اکبر‘ نامی شیر کو ’سیتا‘ نامی شیرنی کو ایک ساتھ پنجرے میں رکھنے اور ان کے نام تبدیل کرنے پر اعتراض اٹھایا گیا ہے۔
اینیمل ایکسچینج پروگرام کے تحت 12 فروری کو تریپورہ کے سیپاہی جالا چڑیا گھر سے آٹھ جانوروں کو سلی گوڑی کے چڑیا گھر میں لایا گیا تھا,ان جانوروں میں ’اکبر‘ نامی شیر اور ’سیتا‘ نام کی شیرنی بھی شامل تھے۔
وشوا ہندو پریشد کا کہنا ہے کہ ’جانوروں کے تبادلے کے بعد سلی گوڑی اینیمل پارک نے شیرنی کا نام ’سیتا‘ اور شیر کا نام ’اکبر‘ رکھا۔ ایسا کر کے حکام نے ہندو مذہب سے متعلق مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔‘ جانوروں کے ایسے نام رکھنا ’بیہودہ‘ اور ’غیر معقول‘ ہے اور یہ ’توہین مذہب‘ کے مترادف ہے۔
مغربی بنگال میں برسر اقتدار پارٹی ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمان اور وزیر برائے جنگلات بیرباہا ہنسدا کا موقف ہے کہ ہم نے تریپورہ چڑیا گھر سے لائے گئے جانوروں کے نام نہیں رکھے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہے کہ ہم نے یہ نام رکھے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ان جانوروں کے نام باضابطہ طور پر رکھیں گی۔ یہ جانور تریپورہ کے چڑیا گھر سے آئے ہیں، ممکن ہے کہ یہ نام انھیں وہاں دیے گئے ہوں۔"
حکام کے مطابق ’اکبر‘ سات سال آٹھ ماہ کا شیر ہے اور ’سیتا‘ پانچ سال چھ ماہ کی شیرنی ہے۔تاہم عدالت نے اس بحت کا خاتمہ کرتے ہوئے حکومت کو دونوں کا نام بدلنے کا حکم دیدیا ہے.
یادرہے اس شکایت کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی جس میں طرح طرح کے میمز کے ساتھ انڈیا کی بدلی ہوئی شبیہ پر بھی تبصرے کیے جا رہے ہیں۔