خواتین کی سیاست میں شرکت معاشرتی ترقی، صنفی مساوات، اور حقوق کی حفاظت میں اہم کردار ادا کرتی ہے، خواتین آج بھی سیاست میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے جنگ لڑ رہی ہیں۔انھیں گھر میں اورگھر سے باہر ہرجگہ مخالف رویوں کا سامنا کرناپڑتاہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعد انتخابی سرگرمیاں شروع ہو گئی ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب میں خواتین ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ سے زیادہ بتائی گئی ہے ۔ ادارہ شماریات کے مطابق ملتان ضلع کی کل آبادی 47 لاکھ 46 ہزار 166 ہے جس میں خواتین کی آبادی 23 لاکھ 10 ہزار 408 ہے جو کے کل آبادی کا 48 فیصد حصہ ہے ملتان جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا اور ملک کا ساتواں بڑا شہر ہے.الیکشن کمیشن آف پاکستان کے حالیہ اعدادوشمار کے مطابق ضلع ملتان کے کل ووٹرز کی تعداد تیس لاکھ اکتالیس ہزار پانچ سو اٹھاسی ہے جس میں خواتین ووٹرز کی تعداد چودہ لاکھ تینتیس ہزار دو سو اکیس ہے جو کہ ضلع ملتان کے کل ووٹرز کا 47 فیصد بنتی ہے شہر میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود لڑنے کے لیے خواتین امیدرواروں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خواتین کے انتخابات لڑنے کے متعلق پاکستان کے آئین اور قانون کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ 2002 سے پاکستان کی قومی اسمبلی میں عورتوں کے لیے 60 سے زیادہ مخصوص سیٹیں موجود ہیں۔ پاکستان کے پہلے آئین (1956) میں خواتین کے لیے 10 سیٹیں مختص کی گئی تھیں، 1962 میں اس تعداد کو کم کر کے 6 کر دیا گیا تھا، 1973 میں دوبارہ دس جب کہ 1985 میں انہیں دوگنا کر کے 20 کر دیا گیا اور اب یہ تعداد 60 ہے۔الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت اگر کسی حلقے میں خواتین کے ووٹ دس فیصد سے کم پڑیں گے تو وہاں انتخابات دوبارہ ہونگے جبکہ ہر سیاسی جماعت 5 فیصد ٹکٹیں خواتین کو دینے کی پابند ہے۔
ضرور پڑھیں:ملتان کے شہری اور بڑے حلقوں کا جائزہ
2018 کے انتخابات میں ملتان کے قومی اسمبلی کے 6 اور 12 صوبائی حلقوں میں خواتین الیکشن تو لڑی مگر کئ پارٹیز کی جانب سے خواتین کو مالی طور پہ مرد امیدواروں کے مقابلے میں حمایت حاصل نہ ہوسکی بعد میں جیتنے والی پارٹی کی جانب سے مخصوص نشست پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے سبین گل کو ممبر صوبائی اسمبلی مقرر کیا گیا بعدازاں 16 اکتوبر 2022 میں این اے 157 سے زین قریشی کے استعفی دینے کے بعد اسی نشست پرزین قریشی کی بہن مہر بانو قریشی نے ضمنی انتخابات لڑتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے علی موسیٰ گیلانی سے مقابلہ کیا۔ جس کے نتیجے میں وہ 82141 ووٹ حاصل کر پائیں جبکہ علی موسیٰ گیلانی نے 107327 ووٹ حاصل کر کے فتح اپنے نام کی ۔یاد رہے مہر بانو قریشی جس حلقے سے الیکشن لڑی تھیں اس حلقے سے زین قریشی کو ہرانا ایک مشکل کام سمجھا جاتا تھا مگر بہن اتنے ووٹ حاصل نہ کر پائی ۔ کامیابی حاصل نہ کرنے کی بڑی وجہ انتخابی مہم نہ کرنا تھا مہر بانو قریشی اپنے حلقے میں صرف مخصوص حد تک ہی انتخابی مہم چلا سکیں نہ ہی انہیں گھر گھر مہم کرتے دیکھا گیا نہ ہی وہ کسی ریلی یا اجلاس کا حصہ بنیں خاندان کی جانب سے سیٹ لینے کے لیے خاتون کو کھڑا تو کیا گیا مگر وہ اپنی خاندانی روایات کے پیش نظر کھل کر مہم نہ چلا سکیں ۔ اس حوالے سے این اے 157 کے رہائشی 80 سالہ محمد ندیم کا کہنا تھا کہ انتخابات میں لیڈر کا چناؤ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے زمین جائیداد کے تنازعات ، معاشی مسائل،کوٹ کچہری کے مسائل حل کر سکے مہر بانو قریشی نے اس طرح ہمیں مطمئین نہیں کیا کہ ہم انہیں لیڈر چن سکیں دور ضرور بدل رہا ہے اگر خواتین سیاست میں آنا چاہتی ہیں تو انہیں ووٹرز کو بھی یقین دلانا ہوگا کہ وہ ان کے مسائل حل کر پائیں گی۔
یہ بھی پڑھیں:’8 فروری 2024کو الیکشن نہیں ہوں گے‘
دوسری جانب الیکشن ہارنے کے بعد مہر بانو قریشی کا کہنا تھا کہ ” میں پہلی بار انتخابات میں اتری اور میرے کے لیے 82000ووٹ ملنا بھی ایک جیت ہے کیونکہ ملتان ڈویژن میں کوئی بھی خاتون میری طرح فرنٹ فوٹ پہ انتخابات میں حصہ لیتی نظر نہیں آئیں ۔انکا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے ہے کہ عورتوں کو آج بھی ایک بہترین لیڈر کی جگہ دینا اور بہترین رہنما کے طور پہ قبول کرنا معاشرے کےلیے ہضم کرنا تھوڑا مشکل ہے۔
“ پاکستان تحریک انصاف شعبہ خواتین کی صدر قربان فاطمہ نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے 2018 کے انتخابات میں پی پی 216 سے جنرل ٹکٹ کے لیے کاغذات جمع کروائے مگر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ اس علاقے میں کام کروانے کے لیے ایک مرد کو سیٹ ملنا لازم ہے بعد میں پاکستان تحریک انصاف کے جاوید اختر انصاری نے وہ سیٹ اپنے نام کی ان کا کہنا ہے کہ پارٹی کی جانب سے انہیں مخصوص سیٹ بھی نہیں دی گئی جبکہ وہ اسی علاقے میں 2001 اور 2005 میں کونسلر کا الیکشن جیت چکی ہیں اس کے بعد انہوں نے 2015 میں چیئرمین کا الیکشن لڑا جس میں تھوڑے ہی ووٹ سے شکست کھائی ان کے مدمقابل 5 مرد امیدوار تھے جن میں سے ووٹوں کی گنتی پہ وہ دوسرے نمبر پہ رہیں قربان فاطمہ کا کہنا ہے کہ 22 سال سیاست میں رہنے اور علاقے میں کونسلر اور چیئرمین کے الیکشن لڑنے کے باوجود پارٹی کی جانب سے انہیں ٹکٹ نہیں دیا گیا انہوں نے بتایا کہ کونسلر منتخب ہونے کے بعد انہوں نے گلی محلے سے لیکر عوام کے تھانہ کچہری کے معاملات بھی حل کیے ہیں ان کا کہنا تھا کہ ان معاملات سے زیادہ حساس معاملے ہماری جنوبی پنجاب میں رہنے والی خواتین کے ہوتے ہیں بطور چئیر مین شعبہ خواتین میں نے ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے متعلق آواز اٹھائی ہے اور بہت سی بے گھر بے آسرا خواتین کو خودمختار بنانے کے لیے مختلف اداروں میں داخل کروایا ہے ایسی خواتین کے مسائل حل کرنے کے لیے ہفتے میں ایک دن صرف خواتین کے لیے مختص کیا تھا جس میں وہ خواتین کے مسئلے سن کر حل کرنے کی کوشش کر سکتی تھیں ان کا مزید کہنا تھا کہ آنے والے انتخابات میں بھی وہ ٹکٹ کے لیے اپنے کاغذات جمع کروائیں گی یا پھر آزاد امیدوار کے طور پہ سامنے آئیں گی اور اپنی مہم بھی کھل کر کریں گی جیسے وہ کرتی آئی ہیں۔
مسلم لیگ ن خواتین یوتھ ونگ کی سابق صدر ڈاکٹر عائشہ عبدللہ کا کہنا تھا کہ وہ 10 سال سے مسلم لیگ ن کے ساتھ کام کر رہی تھیں مگر پارٹی کی جانب سے کبھی بھی ان کو عزت و مقام نہیں دیا گیا نہ ہی ان کو عہدے میں کوئی ترقی دی گئی جبکہ پارٹی کی جانب سے انتخابی مہم ہو یا کوئی فلاحی کام انہوں نے بڑھ چڑھ کرحصہ لیا پارٹی چھوڑ دینے کی دھمکی پہ 2018 کے انتخابات میں انہیں جیتنے کی صورت میں مخصوص نشست دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا مگر پارٹی کی جانب سے انہیں پھر بھی مخصوص نشست نہ دی گئی بلکہ ملتان سے کسی بھی خاتون کو مخصوص نشست نہ دی گئی اس لیے انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کو خیر باد کہہ کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور اب اپنے کام پاکستان پیپلز پارٹی کی ومن ونگ کے ساتھ مل کر کر رہی ہیں۔
مسلم لیگ ن کے ڈویژنل سیکریٹری سعد کانجو کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن خواتین کو عزت و احترام دیتی ہے پارٹی کے اندر وہ خواتین جن کو ایم پی اے نہیں بنایا جاسکتا پارٹی ان کو دوسرے طریقوں سے مختلف مواقع فراہم کرتی ہے اور آگے بڑھنے کا موقع دیتی ہے انہوں نے ڈاکٹر عائشہ کی بات کو مسترد کرتے ہوئے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن میں ایسی بہت سی خواتین کام کر رہی ہیں جنہیں پارٹی نے ان کی محنت اور لگن دیکھتے ہوئے اسمبلیوں تک پہنچایا ہے البتہ ملتان میں بھی اگر کوئی ایسی خاتون سامنے آئی جنہیں پارٹی نے اہل سمجھا تو اسے ضرور موقع دیا جائے گا ۔
پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والی عابدہ حسین بخاری نے بتایا کہ وہ گزشتہ 12 سال سے سیاسی اور سماجی کام سرانجام دے رہی ہیں وہ سرائیکستان صوبہ کی تحریک کے لیے بھر پور کام کر رہی ہیں اور ایوانوں تک اپنی آواز پہنچانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں جنرل الیکشن ہوں یا ضمنی انتخابات پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے ان کی مہم بھی بھرپور ہوتی ہے جس کو پارٹی لیڈر کی جانب سے سراہا جاتا ہے ان کی اپنے کام کے ساتھ لگن دیکھتے ہوئے اس بار پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے انہیں مخصوص نشست دینے کا وعدہ کیا گیا ہے انکا کہنا تھا کہ وہ آزاد امیدوار یا پھر پارٹی ٹکٹ کے لیے اس لیے کاغذات جمع نہیں کروا رہیں کیونکہ الیکشن لڑنے کے لیے انکے مالی حالات اس قبل نہیں اس لیے پارٹی کی کمپین کریں گی اور پارٹی جیتیں تو انہیں شاید موقع بھی دے گی ۔ان کا کہنا ہے ان کا یہ سفر کبھی بھی آسان نہیں تھا سیاست میں آنے کی بات سنتے ہی باہر والوں کی تو دور کی بات اپنے ہی سگے بھائیوں نے میری مخالفت کی تھی خاندان والوں کا کہنا تھا کہ سیاست عورتوں کے لیے نہیں بنی مردوں کے مقابل کیسے کام کرو گی۔
عابدہ بخاری نے بتایا کہ ایک عورت آج کے دور میں بھی مرد کے سہارے کے بنا آگے نہیں بڑھ سکتی پورے خاندان کی مخالفت مول لیتے ہوئے ان کے شوہر نے ان کا ساتھ دیا اور دے رہے ہیں آج بھی خاندان کے لوگ انہیں آکر کہتے ہیں آپ کے پوسٹر فلاں چوک پہ لگے تھے آپ کو شرم نہیں آئی آپ فلاں چینل پہ انٹرویو دے رہی تھیں آپ کو خاندان کی عزت کا لحاظ نہیں ان کا کہنا تھا کہ خواتین ہر شبعے میں اپنا لوہا منوارہی ہیں تو سیاست میں بھی آنے میں انہیں شرم محسوس نہیں کرنی چائیے ۔ ہمارے لیے روشن مثال فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو ہیں ہم عورتیں جب کچھ کرنے گھر سے باہر نکلتی ہیں چاہے وہ تعلیم ہو یا نوکری تو ہمارے کردار پہ سوال اٹھائے جاتے ہیں اور جب ہم کسی مقام پہ پہنچ جاتی ہیں تو سوال اٹھانے والے لوگ ہی ہمارے پاس کام لیکر آتے ہیں کیا تب ہمارا کردار اچھا ہوجاتا ہے؟؟؟ ان کا کہنا تھا عورتوں کے لیے حقوق کے اسمبلیوں میں آواز اٹھانا ان کے لیے بل پاس کروانا ایک خاتون لیڈر اچھے طریقے سے کر سکتی ہیں ۔آج بھی لوگ مجھے کمپین کرتا دیکھ کر مجھ پہ باتیں کرتے ہیں اور کچھ تو اپنے محلے کی خواتین کو بھی گھر آنےسے منع کرتے ہیں کہ کہیں وہ مجھے دیکھ کر” خراب“ نہ ہو جائیں مگر میں ہمت نہیں ہارتی ایک لیڈر کا کام ہے وہ محنت اور لگن سے کام کرے۔
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے لیے پارٹی ہمیشہ دروازے کھول کر رکھتی ہے ملتان کی سیاست میں خواتین کو آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے جنوبی پنجاب میں خواتین کا سیاست میں آنا شروع ہوگیا ہے ہماری جماعت اگر اس الیکشن میں جیتی تو ضرور اس بات پہ غور کیا جائے گا کہ ملتان سے کسی خاتون کو ایم پی اے بنایا جائے''۔ ملتان ضلع سے آزاد امیدوار کے طور پہ خواتین کے انتخابات لڑنے کی بات کی جائے تو ملتان سے واحد خاتون نغمہ مشتاق نے پی پی 222 اور این اے 159 سے آزاد امیدوار کے طور پہ 2018 کے انتخابات میں حصہ لیا تھا ساتھ ہی پی پی 223 سے ن لیگ کی ٹکٹ پر بھی الیکشن لڑی تھیں اور فتح حاصل کی تھی۔
پی پی 217 سے ن لیگ کی ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لینے والی تسنیم کوثر کا نام کم ہی لوگ جانتے ہیں کیونکہ الیکشن لڑنے پر پوسٹر پر ان کی کوئی تصویر نہیں لگائ گئی اور تو اور انکے نام کی جگہ بھی انکے شوہر کا نام بیگم وحید آرائیں لکھا گیا اور الیکشن مہم میں بھی وحید آرائیں ہی آگے رہے، اس حوالے سے تسنیم کوثر کا کہنا تھا کہ وہ سیٹ ن لیگ کی جانب سے وحید آرائیں کو دی گئی تھی ڈبل شناختی کارڈ ہونے پر وہ نااہل ہوئے تو شوہر کی سیٹ پہ الیکشن میں حصہ لیا تھا ،اس لئے ہر پوسٹر پر میرے نام کی جگہ بیگم وحید آرہی لکھا گیا اور انتخابات کی مہم میں بھی ہر کام شوہر کی مشاورت سے کیا تھا کیونکہ وحید آراہیں نا اہل ہوئے تھے مگر پارٹی کی جانب سے انکو حمایت بھرپور حاصل تھی اس لیے ہر مہم اور کورنر میٹنگ میں انہوں نے بھڑ چڑھ کر حصہ لیا لیا تھا دوسری جانب پی پی 217 کی رہائشی 45 سالہ آمنہ بی بی کا کہنا تھا کہ ووٹ اسکو دیا جاتا ہے جو ہمیں نظر آئے ہمیں بس یہ معلوم تھا کہ وحید آراہیں کی بیوی میدان میں اتری ہیں جس لیڈر کا نام تک ہمیں معلوم نہ ہو تو وہ ہمارے لیے کیا کام کرے گا ؟ ایک عورت اگر میدان میں اترتی ہے تو بھر پور طریقے سے اپنے اوپر اعتماد بھی دلاتی ہے کہ وہ انکے مسائل حل کرے گی مگر یہاں تو بس انکے نام پہ الیکشن لڑا گیا تھا جس وجہ سے ہم نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا۔
پی پی 217 سے 2018 میں الیکشن لڑنے والی کلثوم ناز کا خواتین کی مختص سیٹوں کے حوالے سے کہنا تھا کہ یہ تو وہ حساب ہے جیسے آٹے میں نمک ہو 5 فیصد مختص سیٹ عورتوں کے لیے ؟؟ جبکہ ہماری آبادی کا آدھا حصہ عورتوں کا ہے اسکو بڑھا کر اگر 20 فیصد ہی کر دیا جائے تو معاشرے میں واضح تبدیلی آئے گی مگر 5 فیصد کوٹہ بھی ہمارے مرد حضرات سے ہضم نہیں ہوتا الیکشن لڑنے کے حوالے سے انکا مزید کہنا تھا کہ الیکشن اب پیسوں کا کھیل بن چکا ہے یعنی پیسہ پھینکو اور تماشہ دیکھو 2018 کے الیکشن میں بھی جتنا خرچہ ہوا وہ انہوں نے اپنی جیب سے کیا پارٹی کی طرف سے تعاون ضرور تھا لیکن مالی معاونت نہیں کی گئی، اس بار الیکشن نہیں لڑو گی البتہ پارٹی کی جانب سے جاری کردہ کمپینز میں حصہ ضرور لوں گی الیکشن نہ لڑنے کی ایک بڑی وجہ پیسے کا نہ ہونا ہے کم سے کم بھی 60 سے 70 لاکھ ہونا ضروری ہے الیکشن لڑنے کے لیے کلثوم ناز کا کہنا تھا کہ جب پارٹی کسی امیدوار پر اتنا پیسہ لگاتی ہے تو نشست جیتنے کے بعد وہ دوگنا کمانے کی کوشش بھی کرتا ہے جبکہ عورت اپنے دم پہ آتی ہے اسے معلوم ہے کرپشن کروں گی تو ساتھ دینے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس لیے اپنے دم پہ آئی ہوں اور صرف عوام کی ہی خدمت کروں گی میرا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہر مرد سیاست دان کرپٹ ہوتا ہے مگر زیادہ تر اسی پالیسی کے تحت سیاست میں آتے ہیں ۔
سماجی کارکن زہرہ سجاد زیدی جو پچھلے 35 سال سے مختلف پلیٹ فارم کے زریعے خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں انکا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کی سیاست میں بالخصوص ملتان میں خواتین کے کردار کی بات کی جائے تو وہ کافی اہمیت کا حامل ہےلیکن سیاست دان عورت کو بس سیٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں جس کی جیتی جاگتی مثال ہیں تسنیم کوثر ہے جنہوں نے اپنے شوہر وحید آرائیں کےنااہل ہونے کے بعد پی پی 217 سے الیکشن لڑا مگر انکے کسی بھی پوسٹر پہ تسنیم کوثر نہیں لکھا گیا بلکہ بیگم وحید آرائیں لکھا گیااور نہ ہی انہوں نے کسی کارنر مینٹینگ میں شرکت کی،، الیکشن سے پہلے اور بعد مین بھی انکے شوہر آگے نظر آئے اور اسکے نتیجہ میں انتخابات میں شکست ہوئی کیا یہ سرا سر زیادتی نہیں کیا ایک عورت اپنے فرایض سر انجام نہیں دے سکتی سیاسی عورت پہ بھی پارٹیز دباؤ ڈالتی ہیں۔
زہرہ سجاد زیدی کا مزید کہنا تھا کہ سیاست میں خواتین کو جو تھوڑا بہت حصہ دیا گیا ہے اس پر بھی ہمارے مرد حضرات قابض ہونے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں، ایک عورت گھر بھی چلا سکتی ہے اور سیاست میں بھی اپنے پاؤں بھی جما سکتی ہے مختلف شعبوں کی طرح اگر جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شہر جہاں زیادہ تر لڑکیوں کو پنچائتی فیصلوں کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے،جہاں بھٹوں پر کام کرنے والی خواتین کے مسائل اور عورت کے تشدد پر آواز اٹھانے والے کو نشانہ بنایا جاتا ہے ادھر اگر ایک خاتون لیڈر آگئی تو وہ یقینا تبدیلی لا سکتی ہے آج بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور سیاست میں تو ہے ہی مردوں کا راج یہ تو خواتین کے لئے مختص کی گئی 5 فیصد نشستوں سے ہی واضح ہوتا ہے کیا اگر اس مختص نشستوں کو بڑھا دیا جائے تو خواتین سیاسی میدان میں نہیں اتریں گی ؟ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ایک عورت سیاسی معاملات مرد کی طرح نہیں سنبھال سکتی بلکہ عورت بہتر طریقے سے سیاسی معاملات سنبھال سکتی اسکی مثال سابق صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کی ہے جو کینسر جیسی بیماری سے لڑتے ہوئے بھی تمام معاملات بخوبی انجام دیتی رہیں تھیں ایک عورت کی مضبوطی کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے عورت نازک ضرور ہے مگر کمزور نہیں۔
رائٹر کا تعلق ملتان سے ہے ،ماس کمیونیکیشن گریجوایٹ ہیں،گزشتہ پانچ سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔